Sunday 4 May 2014

Love for All Hatred for None



Y.A.N بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ مؤرخہ 02مئی 2014 بمقام بیت الفتوح لندن نمبر 1 :تشہدو تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا حضرت مسیح موعود ؑ کے حوالہ سے کچھ خطبات میں معرفت الہیٰ اور محبت الہیٰ کے طریق اور اللہ کی ذات کی حقیقت بتائی ہے آج آپ ؑ کی تعلیم کی روشنی میں علمی خزانہ میں سے چند حوالے پیش کرونگا جن میں قرب الی اللہ کی حقیقت اور حصول کے ذرائع اور اہمیت اور جماعت سے حصول سے توقعات کا اظہار فرمایا ہے ۔اللہ کو حاصل کرنے کے لئے اصل نیکی خدا کی ذات میں ہے اور اسی کی طرف سے ملتی ہے اور انعامات اور قرب حاصل ہوتا ہے ۔فرمایا حقیقی طور پر بجز خدا ئے تعالیٰ کےاور کوئی نیک نہیں ۔ہر قسم کی نیکی اور خلق اسی کے لئے ہے ۔پھر جس قدر کوئی نفس سے فانی ہو کر اس ذات کا قرب حاصل کرتا ہے اسی قدر اخلاق الہیہ اس کو ملتے ہیں :فرمایا بندہ کو جو خوبیاں اور تہذیب خدا کےقرب سے ہی ملتی ہے اور مخلوق کچھ چیز نہیں ۔اخلاق فاضلہ کا انکاس قرآن کی پیروی کرنے والوں پر ہوتا ہے ۔اور تجربہ بتلا سکتا ہے کہ محبت کے بھرے ہوئے جوش سے قرآن کی پیروی والوں سے ظاہر ہوتے ہیں ان کی نظیر نہیں ملتی ۔اگر کوئی منہ سے دعویٰ کر سکتا ہے مگر تجربہ صحیحیہ کے تنگ دروازے سے نکلنے والے لوگ یہی ہوتے ہیں ۔جو خدا کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کرتا ہے اسی سے اخلاق ظاہر ہوتے ہیں : اپنی آلودگیوں کو پوشیدہ رکھ کر اپنی چھوٹی تہذیب دیکھاتے ہیں اپنے گند چھپائے ہوتے ہیں اور وہ بناوٹ ہوتا ہے ۔ادنی ادنی امتحاتون میں ان کی کلی کھل جاتی ہے جب وہ انسان آزمائے جاتے ہیں تو پتہ چلا جاتا ہے جھوٹ اور سچ اخلاق سب ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ذاتی مقدموں میں یہ سب کچھ ہو جاتا ہے ۔ایک مجلس میں اچھے اچھے لوگوں نے بے تکلف مجلس لگانے کا کہا ہر طرح کا گند بولا گیا ۔ان کی کلی کھل گئی کیونکہ وہ تصنع تھا ۔وہ معاشرہ میں ان چیزوں کو دکھانا ضروری سمجھتے ہیں نہ کہ خدا کی رضا سے ۔جو گندگی ان کے دلوں میں ہے تو وہ دنیاوی کام ان کے متاثر ہوتے ہیں اس لئے وہ تصنع سے کام لیتے ہیں ان اخلاق کا مقصد ذاتی مفاد ہوتا ہے ۔مگر دوسرے لوگ خالص خدا کی وجہ سے ظاہر کرتے ہیں جو خدا کے ہو رہے ہوتے ہیں جن کے نفوس کو خدا غیریت سے بکلی خالی پا کر اپنے اخلاق سے بھر دیتا ہے ۔ان کے دلوں میں اخلاق پیارے کر دیتا ہے جیسے وہ خود پیارے ہیں ۔ وہ خدا کا ایک آلہ ہو جاتے ہیں ان کو بھوکے اور پیاسے پا کر آب زلال ان کو خاص چشمہ سے پلاتا ہے ۔فرمایا خدا دھوکہ کھانے والا نہیں وہ ان کو ہی خاص مقرب بناتا ہے جو اس کے دریا میں مچھلی کی طرح تیرنے والے ہیں جو اسی کی اطاعت میں فنا ہو جاتے ہیں ۔یہ قول سچے کا نہیں ہو سکتا کہ خدا کے علاوہ سب گندے ہیں ۔سچے گیان کا یہی شروع سے وہ اپنے بندوں کو پاک کرتا رہا ہےتا مگر حقیقی پاکی کاچشمہ خدا کی ہی ذات ہے ۔یہ اخلاق فاضلہ اور نیکیاں اور قرب الی اللہ کا وسیلہ آنحضرت ﷺ کی کامل اطاعت سے ہے ۔فرمایا ہمارا اس بت پر ایمان ہے کہ ادنی درجہ صراط مستقیم کا بغیر اتباع ہمارے نبی کریم ﷺ کے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا ۔چہ جائیکہ اعلیٰ مدارج ۔کوئی مرتبہ شرف کا کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز کامل متابعت کے حاصل نہیں ہو سکتا ۔ہمیں جو کچھ ملتا ہے ظلی اور طفیلی طور پر ملتا ہے ۔پھر کیا حقیقت ہے اسلام کی اور مسلمان کو کیسا ہونا چاہے ۔ فرمایا : اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ گردن خدا کے آگے قربانی کے بکرہ کی طرح رکھ دینا اپنے ارادے کھوکر خدا میں گم ہو جانا اور اس کی محبت ذاتی سے پورا رنگ حاصل کر کے محبت سے اطاعت کرنا ۔اور ایسی آنکھیں اور کان اور دل پیدا کرنا جس سے ان کی اطاعت ظاہر ہو اور ایسی زبان جو اس کے بلائے بولے یہ وہ مقام ہیں جس پر سارے سلوک ختم ہو جاتے ہیں :اور پورے طور پر انسان کی نفسانیت پر موت وارد ہو جاتی ہے تب خدا کی رحمت زندگی بخشتی ہے اور وہ دقیق در دقیق نور پاتا ہے جس کو عقل دریافت نہیں کر سکتی ۔ہم اس سے شاہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہین ۔پس ایسا ہی قرب سے فانی انسان کو مشرف کرتا ہے ۔پھر وہ وقت آتا ہے کہ آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں اور نئی آنکھیں ہو جاتی ہیں اور ان کی چادر کے اندر لپیٹا ہوا پتا ہے ۔پھر سفلی چولہ پھینک دیتا ہے ۔اور نور کالباس پہن لیتا ہے ۔بلکہ اسی دنیا میں دیدار اور گفتار کی نعمت کو پا لیتا ہے ۔ پھر دو قسمیں استغفار جس سے ایمان مضبوط ہوتا ہے ایک یہ دل کو خدا کی محبت میں گناہوں سے جو علیحدیگی میں جوش مارتے ہیں اس سے مدد چاہنا یہ استغفار تو مقربوں کا ہے ۔جو ایک لمحہ کے لئے بھی خدا سے دوری کو تباہی سمجھتے ہیں ۔دوسری قسم یہ ہے کہ گناہ سے نکل کر خدا کی طرف بھاگنا اور کوشش کرنا کہ دل خدا کی محبت کا اسیر ہو جائے ۔تا نشونما پا کر گناہ سے بچ جائے دونوں ہی استغفار ہیں ۔اس بات کی وضاحت کہ خدا کی پہچان کے کئی مرتبے ہیں قرب الہیٰ سے صحیح پہچان ہوتی ہے ۔سچی خواب اور الہام پر خوش نہیں ہونا چاہے ۔قرب کی تلاش کرو وہ خدا کے فرستادہ سے جڑ کر ہی ملتا ہے ۔جس سے مسلسل خدا ہمکلام ہوتا ہے ۔فرماتے ہیں خدا نور ہے جیسے کہ اس نے فرمایا وہ اللہ آسمان اور زمین کا نور ہے ۔جو اس کو دیکھتا ہے مگر وہ دور سے دھواں دیکھنے کے مترادف ہے روشنی نہیں دیکھتا فرمایا نیز اس کی گرمی سے بھی دور ہوتا ہے ۔جو لوگ ظنی الہامات سے وجود خدا پر دلیل لیتے ہیں مگر خدا کے قرب سے بے نصیب ہیں ۔پھر مدارج قرب مختلف ہیں ۔اس لئے خدا کا مقرب ہونے کے جو قرب اور محبت کے مقام میں بڑھ کر ادنی درجہ کا قرب رکھنے والا ہلاک ہوتا ہے بلکہ بے ایمان ہو کر مرتا ہے جیسے بلم بعور کا حال ہوا موسیٰ کے مقابلہ پر اس قرب کا اعلیٰ درجہ آنحضرت ﷺ کا اور اس زمانہ میں یہ مقام رسول کریم ﷺ کی پیروی سے آپ کو یہ مقام دیا ہے جو اس سے الگ ہو کر قرب کی تلاش کرے گا اس کا انجام بلعم جیسا ہوگا ۔ پھر فرمایا قرب الی اللہ قرآن کی پیروی سے ملتا ہے اور نشانات بھی دکھاتا ہے ۔ہر ایک جو اس سے مقابلہ کرتا ہے جو قران کا پیرو ہے تو ھیبت ناک نشانوں سے ظاہر کرتا ہے ۔یہ بات بھی یاد رکھو ہر بات میں نفع ہوتا ہے ہر ایک چیز کیڑے بھی فائدہ مند ہوتے ہیں ۔ارضی یا سماوی خدا کی صفات کے ظل ہیں جب ظل میں نفع ہے تو ذات مین کس قدر نفع ہو ستکا ہے ان اشیاء سے نقصان اپنی غلطی کی وجہ سے اٹھاتے ہیں ۔اسی وجہ سے بعض صفات کا علم نہ رکھنے کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں ۔دنیا میں تکلیف اٹھانے اور رنج پانے کا یہی ایک راز ہے ۔جیسے جیسے متقی قریب ہوتا ہے نور ہدایت ملتا ہے اور معلومات اور عقل میں ایک روشنی پیدا کر دیتا ہے جوں جوں دور ہوتا ہے ایک بتاہ کرنے والی تاریکی دماغ پر قبضہ کر لیتی ہے ۔نور سے حصہ پانے والا راحت اور عزت پاتا ہے ۔خدا نفس مطمئنہ کو بلاتا ہے ۔بعض لوگ بظاہر حکومت سے کچھ حاصل کر کے اطمینان حاصل کرتے ہیں بعض کا ذریعہ اولاد ہے مگر سب کچھ فانی ہے مگر سچا اطمینان خدا سے ہی ملتا ہے ۔قرب کی وجہ سے جو اطمینان ہے وہ دولت و ذر کی پرواہ نہیں کرتا ۔وہ راحت کی تلاش کرتا ہے جو خدا کی ذات میں ہے ۔خدا سے دوری جہنمی زندگی ہے ۔ اعلیٰ درجہ کی خوشی خدا میں ملتی ہے ۔جنت پوشیدہ کو کہتے ہیں جنت کو جنت اس لئے کہتے ہیں کہ نعمتیوں سے ڈھکی ہوئی ہے اصل جنت خدا ہے ۔جس قدر قرب الہیٰ حاصل کرتا جاتا ہے اسی قدر سکھ اور آرام پاتا ہے ۔جس قدر قرب ہوگا اسی قدر خدا سے فیض پائے گا۔ جو شخص اپنے وجود کو خدا کے سامنے رکھ دے وہ خدا سے اپنا اجر پائے گا ان پر نہ خوف ہے نہ غم ہے ۔دعا بھی قرب الہیٰ کا ذریعہ ہے دعا کی مثال چشمہ شیریں کی طرح ہے جب چاہے اس سے سیراب کر سکتا ہے مومن کا پانی دعا ہے جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔اس کا ٹھیک محل نماز ہے ۔جس میں راحت اور سرور ملتا ہے ۔جس کے مقابل پر عیاش کا کامل درجہ کا سرور بھی ہیچ ہے بڑی بات قرب الہیٰ کا ملنا ہے ۔پس قرب الہیٰ حاسل کرنے کے لئے نمازوں کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے ۔نمازوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں خدا کے قرب کا ایک درد ہو اگر یہ درد نہیں ہے تو دنیا کا ہی درد ہے تو پھر آخر تھوڑی سے مہلت پا کر ہلاک ہو جائے گا خدا مہلت اس لئے دیتا ہے کہ وہ حلیم ہے ۔انسان اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ تعلق بنائے رکھے عبادت کا مرکز دل ہے ۔اگر عبادت کرتا ہے دل خدا کی طرف نہیں تو عبادت کس کام ائے گی ۔اعمال کے باغ کی سر سبزی پاکیزگی قلب سے ہوتی ہے ۔کامیاب ہونے والا پاک دل ہوتا ہے ۔خدا کی طرف آنے کے لئے ہزارہا روکین ہیں لیکن ان روکوں کو دور کرنا بھی خدا کے فضل سے ہوتا ہے وہی توفیق عطا کرے تو نیک و بد میں تمیز کر سکتا ہے بات یہی ہے کہ وہ اس کی طرف رجوع کرے تا کہ قوت اور طاقت دے قرب الہیٰ کے لئے توبہ بھی ضروری ہے ۔گناہ ایسی زہر ہے جس سے انسان ہلاک ہو جاتا ہے اور قرب سے الگ ہو جاتا ہے جس قدر گناہ میں متبلا ہوتا ہے وہ دور ہوتا جاتا ہے وہ روشنی اور قرب جو نور خدا سے ملتا تھا اس سے دور ہو جاتا ہے ۔تاریکی میں آفتوں کا شکار ہو جاتا ہے اور شیطان کے قبضہ میں آجاتا ہے ۔اس سے بچنے کے لئے اللہ نے ایک سامان بھی رکھا ہوا ہے ۔وہ سچی توبہ ہے ۔اس کا نام تواب ہے بہت توبہ قبول کرنے والا ہے ۔گناہ کے ساتھ ہی خدا سے دور ہو جاتا ہے اور رجوع کرتا ہے تو پھر خدا بھی قریب اجاتا ہے اور رحم دکھاتے ہوئے رجوع کرتا ہے اس لئے اس کا نام بھی تواب ہے ۔انسان کو چاہے کہ رجوع کرے ۔اسلام طریق نجات بتاتا وہ سچے اور پاک عملوں کو اپنایا جائے اور قرب کو تلاش کیا جائے ۔پس کوشش کریں کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو ۔تمام عذاب خدا تعالیٰ کی دوری اور غذب میں ہے ۔عمل صالح بڑی نعمت ہے اور خدا اس سے راضی ہو جاتا ہے او ر قرب حاصل ہوتا ہے عمل صالح کو کمال تک پہنچانے والے کو نعمتوں کو پاتا ہے ۔جیسے جیسے قرب بڑھتا جاتا ہے وہ کلام الہی سن کر تسلی پاتا ہے اب تم میں سے ہر ایک سوچ لے کیا اس کو یہ مقام حاصل ہے ۔تم پوست پر راضی ہو گئے جب کہ خدا مغز چاہتا ہے ۔میرا یہ کام بھی ہے اسلام کی روح پیدا کرنا بھی ہے ۔سب سے بڑی دولت اور نعمت قرب الی اللہ میں ہی ہے ۔برکات اترتے ہیں ۔آنحضرت ﷺ کی بیخ کنی کے لئے کس قدر زور لگایا مگر کامیاب کون ہوا اور کون نامراد رہے ۔نصرت اور تائید خدا کے مقرب کا بہت بڑا نشان ہے ۔ پھر قرب کے معیار کی طرف توجہ دلاتی ہے بدکار ،متکبر ،خائن اور ہر ایک جو اس کے نام کے لئے غیرت مند نہیں ،وہ جو دنیا پر کتوں یا چیونٹیوں پر گرتے ہیں وہ اس کا قرب حاصل نہیں کر ستکتے ہر ایک ناپاک دل دور ہے وہ جو اس کے لئے دنیا سے توڑتا ہے وہ اس کو ملے گا تم سچے دل سے اور پورے صدق سے خدا کے دوست بنو تم ماتحتوں پر اپنی بیویوں پر غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم بپر بھی رحم ہو تم سچ مچ اس کے ہو جاؤ۔ فرمایا پس جس وقت توہین اور ایذا کا امر کمال کو پہنچ گیا ۔اور جو ابتلاء خدا کے ارادے میں تھا ہو چکا تو اس وقت اس کی غیرت جوش مارتی ہے اور ان کو مظلوم پا کر ،وہ دیکھتا ہے ظلم کیے گئے تب وہ کھڑا ہوتا اور ان کی مدد کرتا ہے تب ان کے دل میں ڈالتا ہے ۔وہ اس کی طرف رجوع کریں وہ ان کے دشمنوں کو شیروں اور چیتوں کی غذا کر دیتا ہے مخلص ضائع نہیں کئے جاتے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سلوک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہم نے ہر جگہ مختلف علاقوں اور ملکوں میں ذلت دیکھی ۔میں پھر افراد جماعت کو اور خاص طور پر پاکستانی احمدیوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ مخالفیں کے خلاف خدا کی لاٹھی چلے گی ۔اگر جلد یہ نظارے دیکھنے ہیں وسیع پیمارنے پر تو ہر ایک احمدی کو قرب اور تعلق میں بڑھنے کی ضرورت ہے ۔خا سے قرب میں بڑھتے چلے جائیں اور کوشش کرنی چاہے تا کہ یہ نظارے جلد تر دیکھ سکیں عمومی طور پر دنیا کے احمدیوں کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔تا شیطان کی حکومت ختم ہو اور مقرب کی حکومت قائم ہو اللہ تعالیٰ ہم کو مقربوں میں شامل کرے ۔ آمین طالب دعا : یاسر احمد ناصر

No comments:

Post a Comment