Friday 18 December 2015

Love for All Hatred for None


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ 18 دسمبر 2015 بیت الفتوح یوکے(مرتب کردہ یاسر احمد ناصر مربی سلسلہ ) تشہد و سورة الحمدللہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : حضرت مسیح موعود ؑ نے جب دعوی مسیح موعود و مہدی موعود کیا تو تب سے آج تک بہت سے اعتراضات لگا رہے ہیں ۔یہ ان کی عادت ہے اور وہ کرتے رہیں گے ۔اس وجہ سے وہ عامة المسلمین کو گمراہ کر نے کی کوشش کرتے رہیں گے ۔سب سے بڑا الزام جو ہے وہ یہ ہے کہ نعوذباللہ آپ ؑ اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ سے بڑا سمجھتے ہیں ۔یہ نام نہاد علماء نعوذباللہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضور ؑ سے نبی کریم ﷺ کے بارہ میں نعوذباللہ کچھ ایسے الفاظ کہے ہیں جن سے توہین ہوتی ہے اور یہی الزام افراد جماعت پر بھی لگایا جاتا ہے ۔یہ ہم مسیح موعود ؑ کو نبی کریم ﷺ سے نعوذباللہ بڑا سمجھتے ہیں ۔جن سعید فطرت لوگوں نے جب بھی جماعت کا لٹریچر پڑھا ان کو فوری طور پر یہ بات سمجھ آ گئی کہ یہ نام نہاد اور فتنہ گر ملاں نے فتنہ کی غرض سے یہ الزامات لگائے ہیں ۔ اس وقت آپ ؑ کے بعض حوالے پیش کرونگا ۔کہ آپ ؑ نے آنحضرت ﷺ کے مقام کو کیا سمجھا ہے ۔کچھ حوالے پیش کرونگا ۔جب آپ ؑ نے براہین احمدیہ تصنیف فرمائی اور جو آخری کتاب وفات سے قبل تصنیف فرمائی ۔اس کے حوالے پیش کرونگا ۔جس میں آنحضرت ﷺ کے مقام و مرتبہ کے بارہ میں پیش گئے ۔ براہین احمدیہ 1880 سے 1884 کے دوران تصنیف فرمائی ۔اس میں آپ فرماتے ہیں ۔کہ اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد ﷺ جو اعلی و افضل سب نبیوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں ۔جن کی پیروی سے ہدایت ملتی ہے ۔اور قرآن کریم کتاب ہے جس سے انسان جہل کے حجابوں سے نجات پا کر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے ۔براہین احمدیہ میں ہی فرماتے ہیں ۔اور یہ عاجز بھی اس عظیم الشان نبی کے احقر خادموں میں سے ہے ۔ پھر 1886 میں سرمہ چشمہ آریہ میں نبی کریم ﷺ کا مقام بتاتے ہیں کہ غرض ’’ وحی الہی ایسا آئینہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کا چہرہ نظر آتا ہے ۔چونکہ آنحضرت ﷺ اپنی پاک باطنی اور انشراح صدری اور عشق میں سب انبیاء سے بڑھ کر اعلی و اکمل اعلی و اجلی و اصفی تھے اس لئے خدا نے ان کو عطر کمالات خاصہ سب سے زیادہ حصہ دیا ۔ اور سب سے پاک تر معصوم تر روشن تر سینہ اسی لائق تھا کہ ان پر ایسی وحی ہو جو سب سے اکمل و اتم ہو کر صفات الہیہ کے دکھانے کے لئے ایک صاف شفاف کشادہ آئینہ ہو پھر 1891 میں توضیع مرام میں فرماتے ہیں۔وحی الہی کی اعلی درجہ کی کیفیت ایک ہی انسان کو ملی ہے جو انسان کامل ہے جس پر سلسلہ انسانیہ ختم ہو گیا اور وہ درحقیقت پیدائش الہی کا آخری نقطہ ہے ۔ادنی سے اعلی تک سلسلہ پیدائش پہنچایا ہے اور جس کا اعلی درجہ محمد ﷺ ہیں ۔جس کا معنی ہیں نہایت تعریف کیا گیا ۔وہ مقام اعلی ہے کہ میں اور مسیح اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے ۔ پھر 1892 یا 1893 کی تصنیف ہے آئینہ کمالات اسلام ۔میں آپ مقام نبی کریم ﷺ کے بارہ میں فرماتے ہین ۔وہ اعلی درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو دیا۔۔۔۔۔غر ض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا یعنی انسان کامل میں تھا جس کے اعلی و ارفع فرد سید المولی اور سید الانبیاء محمد ﷺ ہیں ۔سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب ان کو بھی دیا گیا جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں دیا گیا۔اللہ تعالیٰ کی امانت واپس کرنا کیا ہے کہ اپنی زندگی اس کے دین کی اشاعت کے لئے وقف کر دی پس ہمارے سید ہمارے مولی ہمارے ہادی صادق مصدوق محمد رسول اللہ ﷺ نے اس امانت کا احسن حق ادا کیا ۔اول سے آخر تک کوئی ایسا انسان نہیں جو رسول کریم ﷺ جیسا فنا فی اللہ ہو ۔ 1894 نور حق میں آپ فرماتے ہیں : خوشخبری ہو ان کے لئے جو دین کی خدمت کے لئے کھڑے ہوئے ۔اور ربانی رضا کو پایا ۔درود اور سلام اس کے نبیوں کے سردار پر یعنی محمد ﷺ پر ہے ۔پھر جلد 8 میں ہی اتمام الحجہ میں آپ نے فرمایا وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا ۔جس کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی جس کے آنے سے ایک عالم زند ہ ہوگیا وہ کامل نبی محمد ﷺ ہیں اے اللہ تو اس پیارے نبی پر وہ درود بھیج جو ابتدائے عالم سے تو نے کسی نبی پر نہ بھیجا ہو ۔اگر یہ عظیم نبی نہ آتا تو باقیوں نبیوں پر سچائی کی دلیل نہ ہوتی ۔یہ اس نبی ﷺ کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے ۔ پھر 1895 میں آریہ دھرم میں فرماتے ہیں : ہمارے مذہبی مخالف بے اثر روایات پر بھروسہ کر کے ہمارا دل کھاتے ہیں اور ایسی باتوں سے ہمارے نبی ﷺ کی ہتک کرتے ہیں اور اس سے زیادہ دل دکھانے کا کیا موجب ہوگا کہ چند بے بنیاد روایات پر زنا کا الزام لگانا چاہتے ہیں ۔ہم اس کو خاتم النبوت جانتے ہیں 1896 سراج منیر میں فرماتے ہیں ۔ہم جب انصاف سے دیکھتے ہیں کہ تمام سلسلہ نبوت سے جوان نبی صرف ایک جوان نبی ہے جو رسولوں کا سرتاج ہے جس کا نام محمد مصطفی ﷺ ہے ۔جس کے زیر سایہ دس دن میں ہزاروں برس کی روشنی ملتی ہے ۔ 1898 کی تصنیف کتاب البریہ میں فرماتے ہیں : نبی کریم ﷺ کے معجزات دو قسم کے ہیں ایک آپ ﷺ کے ہاتھ سے آئے اور وہ تین ہزار کے ہیں ۔دوسرے وہ معجزات ہیں جو آپ ﷺ کے وجود سے ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں جن کی تعداد لاکھوں تک ہے ۔چنانچہ اس زمانہ میں اس عاجز کے ذریعہ سے یہ نشان دکھا رہا ہے ۔خدا تعالیٰ کا سب سے بڑا نبی سب سے زیادہ پیارا جناب نبی کریم ﷺ ہیں ۔دوسرے نبیوں کی امت تاریکی میں ہے اور یہ امت ہمیشہ تازہ بتازہ نشان پاتی ہے ۔لہذا ہمارے منہ سے گواہی نکلتی ہے سچ مذہب اسلام ہے ۔اگر قرآن شریف گواہی نہ دیتا تو ہمارے لئے ممکن نہ تھا کہ ان کو سچا نہ سمجھتے کیونکہ جب کسی مذہب میں صرف قصے اور کہانیاں رہ جاتی ہیں تو پھر اس کے بانی کی سچائی بھی ثابت نہیں ہو سکتی ۔لیکن ہمارے نبی کریم ﷺ کے معجزات صرف قصوں تک نہیں بلکہ ہم ان کی پیروی کر کے حق الیقین تک پہنچ جاتے ہیں ۔سچا کراماتی وہی ہے جس کی کرامات کا دریا کبھی خشک نہ ہو ۔وہ شخص ہمارے نبی کریم ﷺ ہیں خدا نے ان کے دریا کی کرامات ہمیشہ جاری رکھی اور اس زمانہ میں ہم کو بھیج کر صداقت کا ثبوت دیا ۔یہ سب برکات ہمارے نبی ﷺ کی ہیں ۔ پھر 1900 میں رسالہ اربعین نمبر 1 میں۔۔۔۔۔ پھر 1902 میں کشتی نوح میں فرماتے ہیں نوع انسان کے لئے کوئی کتاب نہیں مگر قرآن رو انسان کے لئے کوئی نبی نہیں مگر محمد رسول اللہ ﷺ سو تم سچی محبت اس نبی کے ساتھ رکھو اور کسی کو ان پر بڑھائی نہ دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ ۔آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے ۔کسی نبی کے لئے ہمیشہ زندہ رہنا ممکن نہ تھا اور یہ نبی زندہ ہے 1902 نسیم دعوت میں آپ فرماتے ہیں : اس کامل سچے خدا کو ہماری روح کا ذرہ ذرہ سجدہ کرتا ہے ۔جس سے ہر ایک روح ظہور پذیر ہوئی ہے ۔جس کے علم میں سب کچھ ہے ۔اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اس پاک نبی محمد ﷺ پر نازل ہوں جس کے ذریعہ وہ زندہ خدا پایا ۔جو کلام کر کے آپ اپنی ہستی کا ثبوت دیتا ہے ۔سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھایا ۔ 1903 کی تصنیف لیکچر سیالکوٹ میں فرمایا : غرض یہ تمام بگاڑ مذہب میں پیدا ہو گئے جو ذکر کے قابل نہیں ۔یہ تمام اسلام کی ظہور کی وجہ سے تھی ۔ایک عقلمند کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اسلام سے قبل روحانیت کھو کر مذہب بگڑ گیا تھا ۔ہمارے نبی کریم ﷺ سچائی کو لیکر آئے اور اس میں کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیا کو تاریکی میں پایا اور وہ پھر تمام تاریکی نور میں بدل گئی ۔اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ اعلی مراتب کو پہنچ گئے ۔آپ کا دنیا میں آنا اس وقت تھا جب لاکھوں ہدایت سے دور تھے اور پھر آپ نے ان کو نور کی روشنی دی اور جانوروں کو انسان بنایا ۔پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایا ۔پھر ان سے با خدا انسان بنایا ۔اور سچے خدا کے ساتھ ان کا تعلق پیدا کر دیا ۔وہ بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے اور چیونٹیوں کی طرح کچلے گئے مگر ایمان کو نہ ہاتھ سے گنوایا ۔اور تمام کمالات نبوت آپ ﷺ پر ختم ہو گئے ۔آپ کی نبوت میں کوئی حصہ بخل کا نہیں ۔ پھر 1905 براہین احمدیہ جلد پنجم میں فرمایا : ہزار ہزار ہا درود اس نبی ﷺ پر اور ہزار ہا رحمتیں اس نبی کے اصحاب پر ہوں ۔جنہوں نے اپنے خون سے اس کی پاسداری کی ۔پھر فرمایا : سب سے آخر پر مولانا محمد ﷺ ایک عظیم نور لے کر آئے ۔وہ نبی جناب الہی سے بہت نزدیک چلا گیا اور پھر مخلوق کی طرف جھکا اس طرح دونوں قسم کے حسن ظاہر کئے ۔اس حسن کو ناپاک طبع لوگوں نے اور اندھے لوگوں نے نہ دیکھا ۔آخر وہ سب اندھے ہلاک ہو گئے 1907 میں تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس کا نام محمد ﷺ کس قدر اعلی نبی ہے جس کی انتہاء معلوم نہیں ہو سکتی ۔افسوس جیسا حق شناس کا اس کو شناس نہ کیا گیا ۔توحید وہی پہلوان دنیا میں لیکر آیا ۔اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس نبی کریم ﷺ کو دیں ۔وہی سرچشمہ سب ہدایت ہے ۔وہ بغیر اس کے کوئی ہدایت کا دعوی کرتا ہے تو وہ شیطان ہے ۔(الزام لگاتے ہیں آپ ؑ تو فرما رہے ہیں جو بغیر ان کے کوئی دعوی کرے وہ شیطان ہے ۔) ہر ایک معرفت کا خزانہ اس نبی کو دیا گیا ۔جس اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہیں ۔توحید حقیقی اور زندہ خدا کی شناخت اسی کامل نبی سے پائی ۔خدا کے مکالمات بھی اسی نبی سے ملے ۔پھر اسی میں فرمایا : اب اس تمام بیان سے ہماری غرض ہے اللہ تعالیٰ نے اپنا کسی کے ساتھ پیار کرنا اس بات سے مشروط ہے کہ وہ رسول کریم ﷺ کی پیروی کرے ۔میرا ذاتی تجربہ ہے رسول کریم ﷺ سے محبت کرنا خدا تعالیٰ کا پیارا بن جاتا ہے ۔پھر اسی میں فرمایا : سو میں نے خدا کے فضل سے نہ کسی اپنے ہنر سے میں نے اس نعمت سے حصہ پایا ہے اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا ۔اگر میں اپنے سید مولا فخر الانبیاء اور خیر الوری محمد ﷺ کی راہوں کی پیروی نہ کرتا سو میں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا میں اپنے کامل علم سے جانتا ہوں کوئی انسان اس نبی کی پیروی کے خدا کو نہیں پا سکتا ۔دل کی صفائی بھی نبی کریم ﷺ کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہے ۔خدا سے محبت کرنا بھی رسول کریم ﷺ کی پیروی ہے ۔ 1908 کی اپنی تصنیف میں فرمایا : چشمہ معرفت میں : دنیا میں کڑورہا انسان پاک فطرت گزرے ہیں اور بھی ہوں گے مگر سب سے بہتر اور سب سے اعلی اور خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمد ﷺ ۔اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں ۔تم بھی اس پر درود بھیجو ۔صرف ہم ان نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں حضرت موسی حضرت داؤد ؑ ۔سو ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر نبی کریم ﷺ نہ آتے اور قرآن کریم نازل نہ ہوتا تو وہ تمام نبیوں کا صدق ہم پر واضح نہ ہوتا ۔کیونکہ قصوں سے کسی کا صدق ظاہر نہیں ہوتا ۔لیکن نبی کریم ﷺ کے ظہور سے یہ سب قصے حقیقت میں آگئے ۔ہم نے مکالمہ الہیہ اور خدا کے نشان کیا ہیں یہ سب کچھ نبی کریم ﷺ کی پیروی سے پایا ۔ہم نے ایک ایسے نبی کا محمد عربی بادشاہ ہر دو سرا کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی اسے خدا تو نہ کہہ سکوں پہ کہتا ہوں اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی نصیب کی ۔جو سورج ہدایت ہے ۔وہ تھکا نہیں جب تک عرب کو شرک سے پاک نہ کر دیا ۔وہ سچائی کی آپ دلیل ہے اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے ۔لیکن افسوس کے اکثر انسان سفلی زندگی کو پسند کر لیتے ہیں اور نور لینا نہیں چاہتے ۔پھر فرماتے ہیں : اب سوچنا چاہیے کیا یہ عزت اور اقبال و شوکت یہ جلال ہزاروں نشان آسمانی و برکات روحانی جھوٹے کو مل سکتی ہیں َہم کو فخر ہے کہ جس کا دامن ملا ۔ہم نے اس کے ذریعہ خدا کو دیکھ لیا ہے ۔اگر اسلام نہ ہوتا تو اس زمانہ میں اس بات کا سمجھنا محال تھا کہ نبوت کیا ہے معجزہ کیا ہے ۔اس عقدہ کو اس نبی ﷺ کے دائمی فیض نے حل کیا ۔ہم اب صرف قصہ گو نہیں بلکہ ہم نے خدا کا نور اپنے شامل حال پایا ۔ہم کیسے شکر ادا کر سکیں کہ وہ خدا اس نبی ﷺ کے ذریعہ ہم پر ظاہر ہوگیا۔ پس ان علماء کو اعتراض ہے کہ نبی کریم ﷺ کی سچی پیروی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ سے کیوں کلام کیا ۔پس حضرت مسیح موعود ؑ اور جماعت احمدیہ نہیں بلکہ یہ نام نہاد علماء اس الزام کے نیچے آتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا فیض زندہ نہیں ہے اور خدا تعالیٰ کی طاقتیں اب بھی کام کررہی ہیں ۔ پھر مقام و مرتبہ اور جاری فیض کے بارہ میں فرمایا کہ آپ ﷺ کے ظہور سے معجزہ آیا کہ جزیرہ عرب سمندر کی طرح خدا کی توحید سے بھر گیا اور ہمارے سید مولی ﷺ کو جس قدر نشان اور معجزات ملے وہ صرف اس زمانہ تک محدود نہ تھے بلکہ قیامت تک جاری ہے ۔ آ پ ؑ پر الزام ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے ۔پس یہ مقام و مرتبہ ہے آنحضرت ﷺ کا جو آپ ؑ نے سمجھا اور دوسروں کو اس کا ادراک دیا ۔اگر ہم حضرت مسیح موعود ؑ کو ماننے والے نہ ہوتے تو ہم ان کے ذریعہ یہ مقام جو نبی کریم ﷺ کا آج ہم پر ظاہر ہے وہ آ پ کی وجہ سے ہے ۔ان تمام تحریرات میں کہیں بھی کوئ جھول نہیں ہے ہر جگہ مقام و مرتبہ پہلے سے بڑھ کر بیان فرمایا ہے جو کہ 1884 سے 1908 تک کی تحریرات ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان مفاد پرست ملاں سے امت کو بچائے اور یہ محمد ﷺ کے عاشق صادق کو ماننے والے ہوں ۔یہی ایک ذریعہ سے جو امت مسلمہ کے اتحاد کو قائم کر سکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات کو پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق دے اور نبی کریم ﷺ کے ذریعہ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی توفیق دے ۔ آمین

No comments:

Post a Comment