
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ مؤرخہ16مئی 2014 بمقام بیت الفتوح لندن نمبر 1 :تشہدو تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا گزشتہ خطبہ میں رسول کریم کی محبت میں محوہو کر حضرت مسیح موعود ؑ نے اللہ تعالیٰ کی توحید کو سمجھا اور قرآن کو سمجھا آپ ﷺ کے وسیلہ کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں لا ال اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ کو سمجھنا بھی ضروری ہے ۔ محمد رسول اللہ ہی لا الہ الا اللہ کا عملی نمونہ ہین ۔آج کچھ ارشاد پیش کروںگا جو سچی توحید کے بارہ میں بیان فرمائے توحید کیا ہے اور ک طرح موحد کہلا سکتا ہے ۔سورة الناس کی تفیسر میں الہ الناس کے بارہ میں فرماتے ہیں ۔میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس سورة میں رب الناس فرمایا پھر ملک الناس اور الہ الناس اور اصلی مقصود الہ الناس ہی ہے ۔الہ کہتے ہیں مقصود معبود مطلوب کو ۔(ہمار ا ٹارگٹ ہے ایک مسلمان کو کوشش کرنی چاہئے ۔اور لا الہ الا اللہ کے معنی و لا مقصود و معبود و مطلوب لی الا اللہ اس کے سوا کوئی میرا مقصد نہیں میرا مطلوب نہی ہے ۔ہر مدح کا مستحق خدا تعالیٰ کو ہی ٹھہرایا جائے اسی کو حقیقی توحید کہتے ہیں ۔توحید تبھی پوری ہوتی ہے تمام امراض کا چارہ وہی ذات ہو ۔کلمہ کے معنی بھی یہی ہیں ۔لا الہ الا اللہ پر حقیقی معنوں میں کاربند ہو پھر ہی بات بنتی ہے ۔ یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اسلام کے ذریعہ مسلمانوں کو ملا ہے اس فضل کو رسول اللہ ﷺ لیکر آئے ہر لحاظ سے مسلمانوں کو ناز کا موقع ہے خدا ہمارا کوئی مردہ انسان نہیں ہے بلکہ وہ قادر و مطلق خدا ہے ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے مسلمانوں کا رسول وہ رسول اللہ ﷺ کا جس کی بنوت اور رسالت قیامت تک ہے اپ کی رسالت مردہ نہیں بلکہ اس کےثمرات ہر زمانہ میں پائے جات ہیں ۔چنانچہ اس وقت بھی ان برکات اور فیوض کو مسیح موعود ؑ کے لئے ذریعہ کیا ہے ۔ اس کی دعوت ایسی عام ہے کہ پوری دنیا کے لئے اس کی دعوت ہے ۔اے لوگوں تم سب کے لئے اللہ کا رسول ہوں ۔اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا سوائے رحمت بنا کر ۔کتاب بھی دی تو ایسی کامل اور محکم اس میں قائم رہنے والے احکام ہیں ۔غرض ہر طرح سے کامل اور مکمل دین مسلمانوں کا ہے ۔جس کے لئے الیوم اکملت لکم دینکم کی مہر لگ چکی ہے ۔پھر کس قدر افسوس ہے مسلمانوں پر کہ ایسے کامل دین کے ہوتے ہوئے بھی بے نصیب ہیں ۔اس دین کی برکات سے حصہ نہیں لیتے ہیں اس سلسلہ کو قائم کیا اور اکثر انکار کے لئے لست مسلما لست مرسلا کی آوازیں بلند کرنے لگے ۔یاد رکھو خدا کی توحید کا مہض اقرار اس برکات کو حاصل نہیں کر سکتا ہے جو اس اقرار کے ساتھ لوازمات بھی ضروری ہیں ۔اعمال صالحہ ۔توحید فیض یاب تبھی ہوگی جب رسول اللہﷺ میں ہر کر اعمال صالحہ بجا لاؤ گے ۔توحید کے لئے دو پہلو ہیں نبی اور خدا سے محبت کرنا اس کے ساتھ وحد و لاشریک مانا جائے تمام انبیاء کی توحید کا منشاء یہی رہا ہے ۔یہ ایک ایسا پیارا اور کل معنی جملہ ہے اس کی طرح کا کوئی جملہ نہیں ہے الہ کے معنی ہیں ایسامعبود جس کی پرستش کی جائے ۔جو توحید بدوں محبت کے ہو وہ ناقص اور بری ہے ۔محبت اللہ تعالیٰ کی ملتی ہے آنحضرت ﷺ کی وجہ سے ۔ان کی پیروی سے ۔ توحید کی حقیقت اور کیا معیار ہونا چاہئے ؟جولوگ حکام کی طرف جھکے ہوئے ہیں اور ان سے انعام چاہتے ہیں وہ توحید سے دور ہوتے ہیں ۔انبیاء تعلیم دیتے ہیں کہ اسباب اور توحید میں تناقص نہ ہوئے ۔ساری عزت کا متوکل خدا ہی ہے اس کے مقابل پر کوئی بھی ہوگا تو پھر وہ ہلاکت کا موجب ہوگا۔فرمایا کہ مقدم ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید قائم ہو ۔اسباب کو خدا نہ بنایا جائے اسباب کو استعمال کرنا ضروری ہے مگر ان کو خدا نہ بنایا جائے ۔توحید کو مقدم رکھو ۔اصل توحید وہی رکھتا ہے محسن حقیقی وہی ہے جب جب وہ اس حالت کو حاصل کرے تو وہ مواحد کہلاتا ہے ۔توحید کی ایک حالت کسی دوسرے کو خدا نہ بنائے ۔دوسرا رعایت اسباب پر زیادہ انحصار نہ کرے ۔تیسری قسم یہ ہے کہ اپنے نفس کو وجود کی اغراض کو بھی درمیان سے مٹا دیا جائے ۔اپن نفسانی اغراض کو ختم کر دو ۔بعض اوقات انسان کے ذیر نظر اپنی خوبی اور طاقت بھی ہوتی ہے ۔کہ فلاں نیکی میں نے اپنی طاقت سے کی ہے ۔انسان مواحد تب ہوگا جب اپنی طاقتوں کی بھی نفی کر دے ۔انسان عموما گناہ کا کچھ نہ کچھ حصہ اپنے ساتھ رکھتا ہے ۔بعض موٹے اور بعض باریک ۔جب تک ان سے مکمل رہائی نہ ملے وہ انوار کو حاصل نہیں کر سکتا ہے ۔اصل بات بہت سے احکام ہیں ان پر عمل ضروری نہیں ہے ۔حج کے ساتھ شرائط ہیں زکوة کے ساتھ بھی صاحب نساب ہیں ۔ایسے ہی نماز میں بھی جمع ہو جاتی ہے ۔لیکن ایک بات ہے جس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی لا الہ الا محمد رسول اللہ اصل یہی بات ہے ۔حقیقی طور پر عملی پہلو سے بھی ثابت کر دکھائے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبود نہیں ہے پھر وہ خدا تعالیٰ کے حضور اس اقرار میں سچا ہوتا ہے ۔فرمایا انبیاء علیہھم السلام نمونہ کے لئ آتے ہیں آنحضرت ﷺ ہر نمونہ کی مثال تھے سارے نبیوں کے نمونے آپ ﷺ میں جمع تھے ۔ایک دفعہ ایک مجلس میں سوال ہوا کہ یہودیوں میں بھی توحید موجود ہے ۔اپ نے فرمایا توحید کا خول ہے قشر ہے نرا قشر کسی کام کا نہیں ہے ۔نرا لا الہ الا اللہ کہنا ہی کافی نہیں ہے ۔جب تک عملی طور پر حقیقت انسان میں نہ ہو تب تک مکمل نہیں ہو سکتی ۔توحید تو یہ ہے کہ کوئی فعل اللہ کے خلاف نہ ہو ۔لا معبود لی ولا مقصود لی لا مطاع لی الا اللہ ۔ شرک جلی اور خفی ہے جلی کی مثال ہے بت پرستی ہے ۔اور خفی کی مثال انسان کسی چیز کی عزت اس طرح کرے کہ خدا کی طرح عزت دینا شروع کر دے ۔کسی شے سے اللہ کی طرح محبت کرے توکل کرے ۔اب غور کر کے دیکھ لو یہ حقیقت تورات میں پائی جاتی ہے کہ نہیں خود حضرت موسیؑ کے زمانہ میں جو ہوا وہ ظاہر باہر ہے ۔آپ کی کتاب میں پیشگوئی موجود تھی مگر پھر بھی انکار کر دیا اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ؟ ایک موقع پر حضرت عیسی ؑ کے بارہ میں فرمایا ۔اسلام خالص توحید لیکر آیا تھا دوسرے مذہبوں میں پایا نہیں جاتا میرا ایمان ہے کہ پہلی کتابوں میں خدا کی توحید ہے مگر جس اسلوب اور طرز پر خاتم الانبیاء ﷺ توحید لیکر آئے تو کسی اور نے نہ کیا ۔خدا کی وجہ سے ایک حجت پوری ہوتی ہے جب بھی کوئی نبی ایا مخالفوں نے سن کر یہی کہا ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادوں میں یہ واقعہ نہیں سنا توحید اور شرک فی الاسباب ۔توحید اس بات کا نام نہیں ہے کہ زبان سے توحید کی جائے بلکہ دل میں عظمت باری خوب بیٹھ جائے ہر ایک فعل اور حرکت کا مرجع خدا کو سمجھا جائے ہر ایک امر میں توکل اسی پر ہو ۔اس وقت مخلوق پرستی کا شرک ہے ۔عیسائی لوگ اپنے مذہب سے متنفر ہو رہے ہیں ۔اب تعداد بہت بڑھ گئی ہے ۔نام نہاد کہلانے والے ہیں ۔خدا کے وجود کے بھی انکار ی ہو رہے ہیں اسی وجہ سے ۔اسباب پرستی کا شرک بہت سے نہں سمجھتے ۔کسان کھیتی کرتا ہے اور پیشہ پر بھروسہ ہے۔اسی کا نام اسباب پرستی ہے یہ اسی لئے ہے قدرتوں پر ایمان نہیں ہے ۔جن پر مدار زندگی ہےہ یہ بھی فائدہ نہیں دے سکتے ۔پانی پئے تو خیال کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی پیدا کیا ہے اسی کے ارادہ سے پانی نفع دیتا ہے جب چاہتا ہے وہی پانی ضرر دے دیتا ہے ۔ایک روزہ دار نے پانی پیتے ہی لیٹ گیا کہ اٹھنے کے قابل نہیں رہا وہی پانی زندگی بخش تھا زہر بن گیا ۔بے انتہا پانی نہیں پینا چاہئے روزہ کے بعد احتیاط کرنی چاہئے ۔غرض اللہ تعالیٰ کے تصرفات پر کامل یقین ہونا چاہئے لاف و گزاف کا نام توحید نہیں ہے ۔مولیوں کی طرف دیکھو ۔واعظ کر رہا تھا صدقہ و خیرات کا واعظ کیا ایک عورت نے پازیب اتار کر دے دی تو عورت کو کہا کہ دوسرا دوزخ میں جائے اس نے دوسری بھی دے دی ۔عورت اپنی کو کہا یہ باتیں سنانے کی ہوتی ہیں عمل کی نہیں ۔ایک حقیقی مومن جو توحید پر قائم ہو کیسا ہونا چاہئے فرمایا :مومن ایک لا پروہ انسان ہوتا ہے اس کو خدا کی رضا مندی ہوتی ہے ۔جب انسان خدا کے بالمقابل کسی کو دخل دیتا ہے تو ریا کا شامل ہوتا ہے ۔لا الہ الا اللہ میں اس کی بھی نفی ہے ۔حقیقی مومن خدا کے مقابل پر کبھی بھی کسی کو نہیں لاتا ۔فرمایا بعض واقعات لکھے ہیں کوئی روزہ دار مولوی روزہ کا کہے اس کی نظر میں نفس کش ثابت کرنے کے لئے کہتے ہیں مجھےعذر ہے ۔غرض کہ اسی طرح کے بہت سے مخفی گناہ ہوتے ہیں یہ مخفی گناہ ہیں ۔اس سے توحید سے دور ہو جاتا ہے ۔ کبر اور نخوت انسان کو توحید سے بھی دور کرتی ہے ۔عجز ضروری ہے عاجزی ہو گی تو قریب آؤ گے بڑھائی ہوگی کسی بھی لحاظ سے تو اسی قدر پیچھے رہ جائے گا اسی لئے لکھا ہے کہ سادات میں سے اولیاء کم ہوئے ہیں ۔اس قسم کے حجاب انسان کو بے نصیب اور محروم کر دیتے ہیں عمارت اور دولت بھی ایک حجاب ہوتا ہے ۔انت منی و انا منک سوال کیا گیا کہ یہ توحید کے خلاف ہے تو مجھ میں سے ہے اور میں تجھ میں سے انت منی تو صاف ہے میرا ظہور اسی کے فضل سے ہے ۔دوسرا انا منک اس کی صفات میں کوئی شریک نہیں ہے سچی توحید اس پر ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک اس پر کامل ایمان نہ لا ہر لحاظ سے اس کو بے مثل نہ مانا جائے ۔نادان میرے الہام پر اعتراض کرتے ہیں سمجھتے نہیں اس کی حقیقت کیا ہے ۔مگر اپنی زبان سے صفات پر ایمان لاتے ہوئے بھی دوسرے کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔عیسی ؑ کو مردہ زندہ کرنے والا مانتے ہیں یہ خطرناک شرک ہے ۔پس اس قسم کی صفات اللہ تعالیی کی کسی دوسرے انسان میں تجویز نہ کرے ۔دنیا میں جو اسباب کا سلسلہ جاری ہے وہ اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں ۔ہر چیز کے خواص اللہ تعالیٰ کے ودیت کئے ہوئے ہیں ۔اگر صفات الہیہ دوسرے میں مانتا ہے وہ مواحد نہیں کہلا سکتا اسباب کو حد سے نہ بڑھائے ۔انسان میں جو قوت ہے وہ اس سے زیادہ نہیں بڑھ سکتے کان سے دیکھنا ہے تو وہ سونگھ لے وغیرہ اللہ تعالیٰ کے افعال اور صفات محدود نہیں ہیں ۔توحید تبھی پوری ہوگی جب اس کو ہر لحاظ سے پورا کیا جائے ۔انا منک یعنی جو نیستی کے کامل درجہ پر پہنچ کر نئی زندگی حاصل کر لے وہ انسان خدا تعالیٰ کی توحید اور عزت و عظمت جلال کا طہور ہوتا اس رنگ میں اس میں ظہور ہو جاتا ہے ۔خدا تعالیٰ کے ظہور کا ایک آئنہ ہوتا ہے ۔ انا منک والی آواز کا بندہ خدا اس وقت آتا ہے جب اللہ کا نام مٹ جائے ۔اس لئے اب سلسلہ کو قائم کیا ہے ۔اب اس نے مجھ کو مبعوث کیا ہے ۔توحید کی ایک قسم ہے کہ اپنے نفس کی اغراض کو بھی اٹھا دے ۔صحابہ کرامؓ نے نہ گرمی دیکھی نہ کچھ بکری کی طرح ذبح ہوئے اس جماعت کے اخلاص کو کیا کریں دنیا کو چھوڑ دیا ۔ہمارے املاک تباہ ہو جائین گے یہ غلط ہے خدا تعالیٰ نے دو دو سو رکھنے والوں کو بادشاہ کر دیا خدا کی غیرت نہیں چاہتی کہ کچھ حصہ خدا کا ہو کچھ غیر کا ۔توحید کا اختیار کرنا ہی مرنا اور یہ مرنا ہی اصل میں زندہ ہونا ہے ۔ اپ فرماتے ہیں اس دنیا کے بعد ایک اور جہاں ہے اس کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے یہ دنیا کی نعمتیں یہی ختم مگر اس کی نعمتیں ختم نہیں ۔خدا ظالم نہیں ہے جو اس کے لئے کچھ کھوتا ہے وہ بہت کچھ پا لیتا اگر مال کی خواہش نہ ہو وہ ضرور دے دے گا تم دو کوششیں مت کرو ایک ہی کوشش کرو خدا کو پانے کی ۔جو خدا کے لئے دنیا کو چھوٹے ہیں ان کو دنیا مل جاتی ہے ۔اسلام کی اصل جڑ توحید ہے ۔کوئی منہ سے شکایت نہ نکلے کبی کبھی صادقوں پر بلا آتی ہے وہ بلا نہیں انعام ہوتا ہے اس سے مقام و درجہ بلند ہوتا ہے ۔ہمیشہ ڈرتے رہو اس سے فضل مانگو ۔جو اس کی جماعت میں آتا وہ خدا کے فضل سے آتا ہے ،۔ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کریں ۔ہماری جماعت کو دوسروں کی سستی غافل نہ کر دے ۔اور اس کو کاہلی کی جرات نہ دلا دے ۔دوسروں کی وجہ سے اپنے دل سخت نہ کر لینا ۔بہت سی آرزئیں ہوتی ہن مگر قضا و قدر اور ہے ۔دل کو جگا جگا کر غور کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالیی ہمیں توحید کا حقیقی ادراک عطا فرمائے ۔ایک جنازہ غائب بھی پڑھایا ۔سیریہ کہ احمدی تھے بعد میں آکر بہت آگے نکل گئے چندوں میں باقاعدہ تھے ۔گزشتہ سال دور بھی تھے مگر چندہ دیتے رہے شوگر کی وجہ سے گزشتہ دنوں اللہ تعالی کے حضور حاضر ہوئے انا للہ وانا الیہ راجعون ۔بیعت کے بعد خواب دیکھا کہ مسجد قبا میں کبار صحابہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں سفید لباس میں ملبوس ہیں خواب اس بات کا ثبوت ہے کیا میں واقعی صحابہ کے ساتھ نماز پڑھنے کا اہل ہوں ۔شدید بیماری کے باوجود جماعت سے رابطہ رکھتے ۔بہت نرم دل تھے دیما مزاج تھا ۔بیماری کوئی روک نہیں یہ ثابت کرتے ۔تبلیغ کرتے تو آنکھیں نمناک ہو جاتی ۔وفات کے بعد ان کا جنازہ احمدی نہیں پڑ سکتے ۔ہانی طاہر صاحب لکھتے ہیں کہ بہت مخلص احمدی ہیں ۔جماعت کی خدمت کے لئے تڑپ کا اظہار کرتے تھے ۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے مغفرت کا سلوک فرمائے ۔ آمیں : طالب دعا : یاسر احمد ناصر
No comments:
Post a Comment