Friday, 23 May 2014

Love for All Hatred for None



بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ مؤرخہ23 مئی 2014 بمقام بیت الفتوح لندن نمبر 1 :تشہدو تعوذ اور سورۃ فاتحہ اور آیات کریمہ کی تلاوت اور کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا یہ آیات آل عمران کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا فضل و احسان ہے کہ اللہ نے جماعت احمدیہ کو ایسے لوگ عطا فرمائے ہیں جو اپنے عہدوں کو اور قربانیوں کی رو کو جانتے ہیں نہ جانتے ہیں بلکہ اس کی مثالیں قائم کرنے والے ہیں ۔مال کی قربانی ہو کہاں ہونگے تو جماعت کے افراد نظر آئں گے ۔وقت کی قربانی کا مطالبہ ہو تو وہ بھی اعلیٰ نمونے جماعت میں موجود یہں ۔عزت کی قربانی کے نمونے دیکھنے ہیں تو وہ بھی نظر آئیں گے ۔زندگیاں تبلیغ اسلام کے لئے وقف کرنے کا مطالبہ کیا جائے ،جان کی قربانی کا حقیقی نمونہ دیکھنا ہے تو اس کی تاریخ اس پر مہر لگاتی ہے غرض کوئی بھی ایسی قربانی جو اللہ کے بتائے ہوئے حکموں کے مطابق ہو اس کے نمونے جماعت قائم کر رہی ہے ۔آج ایسی جماعت صرف مسیح موعود ؑ کو عطا ہوئ ہے ۔لیکن بعض ایسے ہیں جو علم کی کمی کی وجہ سے ایسی بات کر دیتے ہیں جو مومن کی شان نہیں ۔بعض کہتے ہیں کہ ابتلاء اور صبر کا لمبا عرصہ لمبا ہو رہا ہے تو اگر بات اتنی ہی ہو تو کوئی حرج نہیں تو کوئی غلطی نہیں ہے ۔لیکن ایسا اظہار جس سے دنیاوی واسطوں اور اسباب کی طرف توجہ ہو یہ مومن کی شان نہین ۔لکھنے والے نے لکھا کہ جو ظلم ہو رہا ہے دنیا کو بتانا چاہئے اور ایم ٹی اے پر بھی بتانا چاہئے اور دوسرے ذرائع بھی استعمال کئے جائین ۔دنیاوی طور پر احتجاج بلند کریں تو پھر شائد ہماری خلاف حکومتوں کو ہمارے حقوق دینے کی طرف توجہ ہو ۔شیعہ کا کہتے ہیں ہمارے خلاف ہو تو ہم جلوس نکلاتے ہیں اور دنیا میں شور مچا دیتے یہں احمدی صحیح احتجاج نہیں کرتے ۔اس بارہ میں یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ ہم الہیٰ جماعت ہیں تو پھر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ الہی جماعتیں دنیاوی حکومتوں اور مدوں پر یقین نہیں کرتیں ۔دنیاوی باتیں بغیر کسی غرض کے نہیں ہوتیں ۔اور یہ باتیں حقیقی مومن کبھی برداشت نہیں کر سکتا ۔متی نصر اللہ کی آواز بلند ہوتی ہے تو و خدا کی طرف سے جھکتے ہوئے اس کی طرف سے مدد مانگنے کی دعا ہے ۔اسی سے مدد مانگتے ہیں تو ترقی کے راستے کھلتے جاتے ہیں ۔ آج دنیا مین پھیلے افراد جماعت اور 204 ممالک میں بسنے والے اس بات کے گواہ ہیں یہ ابتلاء نئے سے نئے راستے ترقی کے کھول رہا ہے ۔اور نئی منازل طے ہو رہی ہیں اس بات پر پریشان نہیں ہونا چاہئے کہ ایک ملک مین ابتلاء کا دور لمبا ہے بلکہ اس کے فضلوں کا احاطہ دیکھیں ۔رائت اسباب منع نہیں ظاہر ی طریقوں کو اپنانا منع نہیں ۔ہم نے بھی ظاہری اسباب استعمال کرنے ہیں اور ہم کرتے ہیں دنیا کو آگاہ کرتے ہیں اگر دنیا نے مل کر ان مظالم کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی تو یہ پھیلتے چلے جائیں گے ۔یہ سب کرنے کے بعد بھی ہمارا انحصار صرف خدا پر ہے کسی حکومت پر نہیں ۔کہ تمام نتائج کے حصول کے لئے نظر خدا پر ہو ۔یہی مومن کی شان ہے ۔دنیاوی لوگ اگر شور مچاتے ہیں تو ظلمو ں کا ظلم کر کے بدلہ لیتے ہیں و اس لئے کہ ان سے الہیٰ وعدے نہیں کہ آخری فتح تمہاری ہے جبک ہ ہمارے ساتھ وہ وعدے ہیں ۔کہ آخری فتح ہماری ہے ۔انشاء اللہ۔اس دنیا اور آخری دنیا کے انعامات بھی ملے گئے جو قربانیوں کی مثالیں تم قائم کر رہے ہو وہ رائعگاں نہیں جائیں گی ۔ان کا حل دعائیں ہیں جنتا تم جھکتے جاؤ گے اتنی جلدی دور ہوںگی جتنا زیادہ یار نہان میں نہاں ہونگے اتنا ہی پھل جلد ملے گا ۔ہم نے زمانہ کے امام کی بیعت کی ہے جس سے فتوحات کے وعدے ہیں ۔یہ نظارے ہم دیکھ بھی رہے ہیں ۔شیعوں کی مثال یادوسرے کی وہ تو کہیں نظر نہیں آتا کہ دنیاوی احتجاج کر کے اپنے مقاصد حاصل کئے ہوں ہاں توڑ پھوڑ ہوتا ہے جس سے مزید فساد پھیل رہے ہیں ۔دنیا داروں کے رویوں کی ایک مثال بھی دے دیتا ہوں ۔دنیا مدد کرتی ہے اپنے مفاد کو دیکھ کر گزشتہ دنوں ایک اخبار نے مضمون دیا کہ حکومت کے وفادار نہیں ہوں ۔اس پر ہمارے پریس سیکشن نے کہا یہ غلط ہے وطن سے محبت کی حکومت دیتا ہے ۔ہم نے جب ان کو مضمون دیا گیا تو پھر انکار کر دیا بہرحال یہ بہانے تھے ۔اصل بات یہ ہے کہ ان میں جرات نہ تھی کہ دوسرے مسلمان فرقہ کو جو احمدیوں کے مخالف ہیں ان کو ناراض کریں ۔بعض قسم کے خوف اور ڈر ہیں ۔ میں اکثر یہی کہتا ہوں امن قائم کرنا ہے تو انصاف قائم کرو ۔اکثر اعتراف کرتے ہیں کہ اس بات کی کمی ہے ۔بعض کہیں گے کہ ہم دنیا کے سامنے باتیں انصاف کی کرتے ہیں لیکن مقاصد ہمارے اپنے ہیں ان کو ہم نے حاصل کرنا ہے ۔ان پر انحصار نہیں کیا جا سکتا نہ ان کی اتنی طاقت ہے ۔اخبار کچھ شائع نہیں کرنا چاہتا جس سے وطن سے محبت کا اظہار ہونا چاہئے ۔ان لوگوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ کیسے ان کی طرف دیکھیں اور ان پر تکیہ کریں ۔ہر احمدی خدا کی طرف توجہ کرے تو ہر جگہ تنگیاں دعاؤں سے ہی ہوا میں اڑ جائیں گی ۔شرط دعاؤں کا حق ادا کرنا ہے ۔پاکستان میں جو سختیاں ہو رہی ہیں ظلم کئے جا رہے ہیں قانون کی آڑ میں یہ آج کی پیدا وار نہیں ہے یہ اس وقت سے ہیں جب سے مسیح موعود ؑ نے دعویٰ کیا اور ایک جماعت قائم کی تھی ۔خیال ہوا کہ آبائی بستی سے ہجرت کرنی پڑی گی ۔آپ وہاں بھی محفوظ نہیں تھے ۔آنحضرت ﷺ کی زندگی کا تمام دور بھی یہی تھا ۔آپ کی چہیتی بیوی لاکھوں روپے کی مالک اور بییوں غلام تھے اسلام کے بعد کیسی زندگی ان کی گزری ۔بڑھاپے مین گھر سے بے گھر ہوئیں لمبا عرصہ کسم پرسی کی حالت میں ایک گھاٹی میں رہنا پڑا اسی سے ان کی وفات ہوئی ۔یہ سب کچھ اسلام کی خاطر برداشت کیا ایک نیک مقصد کی خاطر سب کچھ برداشت کیا ۔13 سا ل مکہ میں مظالم ہوئے ہر چیز سے اذیت دی گئی ۔آپ نے جواں مردی سے اس کا مقابلہ کیا اپنے پیاروں کی جان کی قربانی کو برداشت کیا بد دعا کی درخواست پر ہدایت کی دعا مانگی ۔پتھروں سے لہو لہان کرنے پر بھی ہدایت کی دعا مانگی ۔جہاں ظلموں کی داستیں ہیں وہاں صبر اور رحم کی داستانیں بھی ہیں ۔یہ سب کچھ آپ ﷺ نےصبر کو برداشت کیا تو مثالیں دیں صحابہ ؓ نے بھی نمونے قائم کئے اسی طرح مسیح موعود ؑ نے بھی آپ ﷺ کے ظل پر آنا تھا اس لئے آپ نے ماننے والوں کو فرمایا یہ طلم و زیادتی ہونی ہے تکالیف ہونگی آپ نے فرمایا میرا راستہ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں پر چلنا پڑے گا ۔بعض دفعہ نومبائعین سے سوال کر دیتا ہوں تو ان کا تعلق پاکستان سے ہے ہم نے سوچ سمجھ کر بیعت کی اور ہر سختی جھیلنے کے لئے تیار ہیں بعض عورتوں نے بھی اپنے گھر بار چھوڑ دیئے اور اپنے ایمانوں کو نہیں چھوڑا ۔ انہوں نے یہ ادراک حاصل کیا کہ زندگی موت خدا کے پاس ہے اور خوش قسمت ہیں وہ جو قربانی دیتے ہیں ۔یہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں یہ واقعات کسی نہ کسی شکل میں نظر آتے رہتے ہیں ۔جب یہ قربانیوں کے نمونے ہیں تو بعض دفعہ حیران رہ جاتا ہے ۔یہ سب اس لئے ہے کہ مسیح موعود ؑ نے یہ بتا دیا تھا کہ یہ ہوگا سب کچھ دیکھنے اور اپنے پر ہونے کے باوجود اپنے ایمان پر حرف نہ انے دینا ۔اسی استقامت کی وجہ سے دنوں جہان کے انعامات ہونگے ۔قرآن میں بھی کئی جگہ فرمایا ان آیات میں جو تلاوت کی یہی مضمون تھا ۔خدا کے راستے مئیں آنے والی موت انعامات کی بشارتیں ہیں ۔حضرت خالد بن ولید بستر مرگ پر تھے تو ان کو دیکھ کر شدت سے رونے لگے یہ سمجھے کہ شائد موت کا ڈر ہے تو کہا خالد آپ ایسے رو رہے ہیں تو حضرت خالد ؓ نے کہا میرے اوپر سے کپڑا اٹھاؤ کہ انچ انچ پر نشانات تھے موت کے ڈرسے نہیں رو رہا میں نے ہمیشہ شہادت کی تمنا کی ہے لیکن مجھے وہ مقام و متربہ نہیں ملا اور شہادت نہ ملنا میرے شامت اعمال کا نتیجہ تو نہیں ۔یہ خوف ہے بس ۔یہ مقام تھا اللہ کی راہ میں قربان ہونے کی رو کو سمجھنے کا ۔صاحبزادہ عبد اللطیف شہید ؓ سے بار بار کہا مسیح موعود ؑ کا انکار کر دو تو جان بخشی کردونگا ۔مگر آپ نے ہر دفعہ یہی فرمایا آج مجھے خدا تعالیٰ وہ موت دے رہا ہے جو انعامات کا وارث بنانے والی ہے ۔تو میں کیوں یہ جاہلانہ سودا کروں ۔ یہی مومن کی شان ہے ۔مصیت کی وجہ سے کمزور نہیں پرے نہ انہوں نے ضعف دکھایا اور دشمن کے سامنے جھکے نہیں ۔آج بھی ہمارے مخالفین کو یہی تکلیف ہے کیوں کمزوری نہیں دکھاتے کیوں ہمارے سامنے جھکتے نیہں ہیں ان کو نہیں معلوم ایک حقیقی احمدی ہر وقت خدا پر نظر رکھتا ہے ۔اسی کی رضا کے حصول کی کوشش کرتا ہے ۔اپنے ثبات قدم کے لئے ہمیشہ دعا مانگتے رہو ۔دنیا تمہارے ایمانوں کو کمزور کرنے کا زور لگا رہی ہے ۔رب نغفر لنا ذنوبنا ۔۔۔۔ و ثبت اقدامنا ۔ہمارے گناہ بخش اور ہماری زیادتی کو معاف کراور ہمارے قدموں کو ثبات بخش ۔کافر قوم کے خلاف نصرت عطا فرما ۔آمین ۔فرمایا کامیابی دعا سے ملتی ہے اسی کے سامنے جھکو اگر اس سے خالص ہو کر دعا مانگی جا رہی ہو تو سب کچھ ملتا ہے ۔ جو لوگ خدا کی راہ میں شہید ہیں ان کو مردے نہ کہو ۔یہ زندہ ہیں ۔جس کا بدلہ لیا جائے گا ۔ان کو کوئی مایوسی نہیں ہوگی ۔شہادت سے کمزور نہیں ہونگے ۔خدا کے حضور ایسا مقام پانے والے ہیں جس سے وہ خوش ہونگے ان کی موت افسردہ نہین ہے بلکہ خوشی کا سامان پید ا کرنے والی ہے ۔یہ قربانیاں امتحان ابتلاء ہماری ترقی کی رفتار تیز کرنے ولے ہیں نہ کہ مایوسی پیدا کرنے والے ۔ایک جگہ فرمایا ۔جو دعا مانگتے ہیں ان کے ساتھ فرشتے مدد کے لئے اترتے ہیں ۔استقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے ۔حضرت مسیح موعو ؑ فرماتے ہیں وہ لوگ جن نے کہا ہمارا رب اللہ ہے اور باطل سے الگ ہوئے ثابت قدم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں خوشی کی خبریں لیکر اور وعدے دیتے ہیں اس میں بھی اور آخرت میں دوست ہیں استقامت سے خدا کی رضا ہوتی ہے کمال استقامت یہ چاروں طرف خوف ہو پھر بھی صبر کریں کوئی تسلی دینے کی بات نہ ہو خدا بھی چھوڑ دے بطور امتحان اس وقت بزدلی نہ دکھائے ذلت پر راضی ہو جائیں ثابت قدمی کے لئے کسی کا انتظار نہ کریں ۔جوان مردی دکھائے ۔ یہ حالت ہے جو ہم کو ہر ایک سے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔یہ خدا کے فضل کے بغیر حاصل نہں ہو سکتی ۔دشمن پر فتح پانے کی دعا بھی سکھائی ہے ۔ یہ فتوحات کے ایسے دروازے کھولے گا کہ دشمن کے لئے کوئی جگہ نہیں اور انشائ اللہ آخری فتح ہماری ہی ہوگی ۔اس قربانی کی داستان میں ہمارے ایک بھائی خلیل احمد صاحب شامل ہوئے جن کو 16 مئی کو شہید کر دیا گیا ہے ۔13 مئی کو مخالفین نے سٹیکر کو اتارنے کی وجہ سے کچھ بحث ہوئی اس بات کو بنیاد بنا کر جماعت کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کیں ۔اور مطالبہ کیا کہ مقدمہ درج کریں ۔چار افراد کو مقدمہ میں کیا ۔ان کو گرفتار کر لیا مقدمہ کے اندارج کے بعد ایف آئی آر کی ضمانت کروا لی تھی کہ کاروائی ہو رہی تھی کہ 16 مئی سلیم نامی نے اور کھانا دینے خلیل صاحب پر فائر کر دیا پولیس نے گرفتار کر لیا ۔لیکن جام شہادت نوش فرما چکے گھے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔یہ سب کچھ پولیس کے سامنے ہو رہا ہے یہ نوجوان کو اندھا کیا ہوا تھا ۔اللہ اور رسول کے کلمہ قتل کرنے والے کو جہنم کا وعدہ ہے یہ مولوی جنت کا وعدہ دیتے ہین ۔شہیدمرحوم کی عمر 61 سال تھی اور ریٹائر ہوئے تھے ۔نمازی اور تقویٰ شعار تلاوت کرنے ولاے خلافت کے ساتھ تعلق رکھنے والے خطبہ جمعہ باقاعدگی کے ساتھ واقفین زندگی کے ساتھ محبت کا تعلق تھا ۔مخلص احمدی تھے ۔خدمت خلق میں پیش پیش ،۔مال دعوت الی اللہ کی توفیق ملی ۔دو بیٹیاں اور دو بیٹے اور اہلیہ ہیں ۔معلم صاحب لکھتے ہیں کہ وہ بڑے دعا گو تھے ۔فرضوں کے بعد سنت اور نوافل دیر تک جاری رہتے تھے ۔نماز جمعہ کے بعد غائب پڑھاؤنگا ۔مکرم احسان صاحب معلم وقف جدید صاحب کا حاضر جنازہ پڑھاؤنگا ۔1949 مین زندگی وقف کی ۔1999 تک جاری رکھا ۔اسی طرح اپنے بچوں کے ساتھ لند ن آگئے ۔مرحوم موصی تھے ۔ان کا بیٹے محمد احمد شمس بھی ہیں ۔ایک اور جنازہ حاضر بھی خاتون کا تھا ۔خلافت کی فدائی تھیں ۔ان کے بچوں کو جماعت سے وابستہ رکھے ۔ان تینوں کے درجات بلند کرے اور محبت اور مغفرت کا سلوک فرمائے ۔ آمین طالب دعا : یاسر احمد ناصر آمیں : طالب دعا : یاسر احمد ناصر

No comments:

Post a Comment