
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ 28نومبر 2014 بیت الفتوح لندن حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ استعانت کے متعلق یاد رکھیں کہ اللہ کو ہی یہ حق حاصل ہے اور مدد وہی ذات ہے جو طاقت رکھتی ہے اور مدد کرتی ہے ۔اور یہ بات اتنی اہم ہے کہ ایک حقیقی مومن کو ہر وقت اس کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے ۔وہ ذاتی ضرورت کی مدد ہو یا جماعتی ضروریات کے لئے ہو ۔لیکن عملاً ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی اہمیت کے باوجود اس طرف توجہ نہیں ہوتی ۔ہم مین سے اکثر ایسے ہیں جو کہتے تو ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے اور میری ضرورت پوری ہو گئی لیکن گہرائی سے جا کر جائزہ لیں تو اپنی ضرورتوں کو پورے کرنے کے مختلف ذرائع کو وہ اپنی ضرورت پوری ہونے کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔حضرت مصلح موعود ؓ نے مثالیں دے کر مواقع بیان فرمائے جہاں انسان سمجھتا ہے کہ مدد مختلف لوگوں نے کی ہے ۔یا زور بازو سے اپنے مقصد کو حاصل کر لیا ۔پہلی حالت یہی ہے کہ جب انسان سمجھتا ہے کہ میں اپنی تمام ضرورتیں خود پوری کر لونگا۔ان کو اپنی طاقت علم وعقل سے پوری بھی کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دیکھو میں نے اپنی قابلیت اور طاقت و قوت سے مسائل خود حال کر لیئے ۔اس پر فخر بھی کرتا ہے ۔لیکن بعض دفعہ ایسے حالات آجاتے ہیں جب وہ ضرورتیں خود پوری نہیں کر سکتا اس کو باہر کی مدد چاہیے ہوتی تب وہ عزیزوں اور رشتہ داروں کو دیکھتا ہے اور وہ مدد کر بھی دیتے ہیں ۔اس وقت اسے خیال آتا ہے کہ رشتہ داری بھی اچھی چیز ہے ۔اگر یہ نہ ہوتے تو میں ضرورت پوری نہ کر سکتا ۔پھر بعض دفعہ ایسی سورت ہوتی ہے کہ انسان کے اہل و عیال اس کے کام نہیں آتے یا نہیں کرتے تب وہ نظر دوڑاتا ہے تو اس کی نظر اپنے دوست احباب پر پڑتی ہے جو اس کی مدد کر سکتے ہیں اس کے خیال میں ۔وہ بھی مدد کر دیتے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ دوست احباب بھی اچھے ہوتے ہیں جو مشکل وقت میں کام آجاتے ہیں ۔پھر ایک زمانہ ایسا بھی آتا ہے کہ جب دوست بھی اپنی مجبوریاں بتا دیتے ہیں جائز ہوں یا اس سے جان چھڑانے کا بہانا ہو بہرحال اس کے کام نہیں آ سکتے ۔بعض دفعہ دوست کے بس کی بھی بات بھی نہیں ہوتی ۔ایسے وقت میں بعض نظاموں کی طرف توجہ کرتا ہے سلسلہ یا جماعت سے جس سے تعلق ہوتا ہے اس کی مدد کرتا ہے ۔جب کام ہو جاتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ سلسلہ یا نظام بھی اچھی چیز ہے اس سے جڑنا بھی اچھی چیز ہے ۔سلسلہ سے اس کی وابستگی بڑھ جاتی ہے اور بعض لوگوں کو ٹھوکر بھی لگ جاتی ہے ۔فلاں وقت مدد مانگی اور مدد نہیں کی ۔بعض انسانوں کی زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں کہ کوئی بھی اور بعض مجبوریوں کی وجہ سے نظام بھی کوئی مدد نہیں کر سکتا ۔اس وقت وہ حکومت کے پاس جاتا ہے اور اس کی مدد کرتی ہے اس وقت ایسے انسان کے لئے حکومت ہی سب کچھ ہوتی ہے ۔لیکن یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک وقت میں حکومت میں بھی انسان کا ساتھ نہیں دیتی ۔وہ سمجھتا ہے کہ انصاف سے کام نہیں لیتا پھر وہ انسانی ہمدردی والوں کے پاس جاتا ہے وہ بھی کام آجاتے ہیں ۔وہ سمجھتا ہے کہ تمام دنیا مل کر یا دنیا کی انسانی ہمدردی کی تنظیم مل کر اس کے کام آئی ہے اور کوئی کام نہیں آ سکا۔اگر یہ کام نہ آتی تو وہ اپنے حقوق کو حاصل نہ کر سکتا ۔پس اس دنیاوی رشتہ کو جو انسانی ہمدردی کے نام پر اس کے حق دلانے میں مددگار ہوا اسے ہی وہ سب کچھ سمجھتا ہے ۔آج کل تو ملکی اور قومی سطح پر کام کر رہی ہیں ۔اور دنیاوی حکومتوں سے جنگیں بھی لڑتی ہیں ۔دباؤ بھی ڈالے جاتے ہیں بعض بہت اچھا کام بھی کر رہی ہیں اور لوگوں کی مدد بھی کرتی ہیں ۔لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ کوشش تدبیر کام آتی نہ رشتہ دار نہ دوست نہ قوم یا نظام اور نہ ہی انسانی ہمدردی کی تنظیم آتی ہے ۔لیکن پھر بھی اگر کوئی انسان ان سب چیزو ں کے باوجود حاصل ہو جائے تو وہ سمجھا ہے کہ یہ غیبی مدد سے ہوئی اورجتنا اس کو غیبی مدد پر یقین ہوگا وہ اس کو خدا کی طرف منسوب کرتا ہے ۔جب سارے ایسے حالات پیدا ہو جائیں اور کام بھی ہو جائیں تو انسان کہتا ہے کہ غیبی ہستی نے مدد کی تو پھر وہ خیال کرتا ہے کہ خدا نے یہ میرا کام کیا ۔ لیکن انسان خدا تعالیٰ پر کامل یقین رکھتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی مدد دے سکتا تو وہ اس کام کی کامیابی کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرے گا جو کسی بھی بیرونی مدد کے ذریعہ انجام تک پہنچایا ۔اور اس حقیقت کو بھی جانتا ہو کہ رشتہ داروں دوستوں وغیرہ جس نے بھی اس کی مدد کی وہ سب مدد اصل میں خدا تعالیٰ نے ہی کی ۔اور ان تمام ظاہری مددوں کے پیچھے خد اتعالیٰ کا طاقت ور ہاتھ تھا ۔لیکن خدا تعالیٰ سے جس کا مضبوط تعلق نہیں ہوتا اور دنیاوی سہاروں کو کل سمجھتے ہیں ۔لیکن جب یہ تمام ذرائع ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر خدا تعالیٰ یاد آتا ہے ۔پھر خدا تعالیٰ کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے ۔تب وہ کہتا ہے کہ یا اللہ تو ہی مدد کرے تو یہ کام ہوگا سب طاقتوں کا مالک توہی ہے ۔یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ کوئی بڑی سے بڑی حکومت یا تنظیم ایک محدود طاقت رکھتی ہے ۔یہ سب ایک حد کے بعد ناکارہ اور بے فائدہ ہو جاتی ہیں ۔قرآن کریم تو کہتا ہے کہ مایوسی کی حالت میں دہریہ بھی خدا کی طرف آتے ہیں ۔جب کوئی سمندر میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کے سوا ہر وہ ذات ساتھ چھوڑ جاتی ہے اور جب وہ خشکی پر لے جاتا تو پھر اس سے اعراض کرتے ہو اور انسان بہت ہی ناشکرا ہے ۔یہ انسانی فطرت ہے کہ مشکل وقت میں نہایت عاجزی سے اس کی طرف جھکتا ہے ۔مشکل کے ختم ہوتے ہی پھر دوبارہ وہی روش اختیار کر لیتے ہیں ۔خدا تعالیٰ کا رحم کس قدر وسیع ہے کہ باوجود علم کے پھر بھی ان پر احسان کرتا ہے ۔پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ نعوذباللہ خدا ظالم ہے ۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایسے لوگوں کے بارہ میں جو خدا کو نہیں مانتے مشکل وقت میں ان کے منہ سے بھی خدا ہی نکلتا ہے ۔یہ حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں جب زلزلہ آیا اس وقت ایک طالبعلم لاہورمیں خدا تعالیٰ کی ہستی کے بارہ میں بحث کیا کرتا تھا اور استہزاء کیا کرتا تھا زلزلہ کے دوران یہ چھت گرنے والی ہے اور کوئی نہیں بچا سکتی ۔وہ ہندو خاندان کا تھا اس کے منہ سے رام رام نکل گیا ۔اگلے دن پوچھا تو کہتا ہے کہ پتہ نہیں مجھے کیا ہوا تھا میری عقل ماری گئی تھی ۔لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس وقت ہی اس کی عقل نے کام دیا اور جب تمام دنیاوی سہارے اس کی نظر سے دور ہوئے تو ایک ہی سہارا نظر آیا جو تمام طاقتوں کا مالک ہے وہ خدا ہی تھا ۔پس جب تک انسان کو دوسرےذرائع نظر آتے ہیں کام بنتا رہتا ہے ان کی طرف توجہ دیتا رہتا ہے ۔وہ ان کے پیچھے لگا رہتا ہے اور کام کروانے کے لئے بلا وجہ دوسروں کی برائیاں بھی کرتا رہتا ہے ۔جب سب طرف سے مایوس ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے اور اس کی تعریف کرتا ہے ۔اضطرار ظاہر کرتا ہے ۔اسی طرح ایک اور واقعہ سنایا کرتے تھے جنگ عظیم اول کا ۔ایسی حالت جب دہریہ بھی خدا تعالیٰ پر ایمان لے آتے 1918 میں جرمنی نے اتحادی فوجوں پر حملہ کر دیا اس وقت ایک ایسا وقت آیا کہ کوئی صورت بچاؤ کی نہ تھی سات میل لمبی دفاعی لائن ختم ہو گئی ۔فوج بٹ گئی اور خلا پیدا ہو گیا کہ جرمن فوجیں آسانی سے گزر کر حملہ کر سکتی تھیں ۔اور انگریز فوج کو تباہ کر سکتی تھیں ۔اس وقت محاظ پر جنرل تھا اس نے اطلاع دی کہ میرے پاس فوج نہیں ہے یہ صورتحال ہے ۔اس ٹوٹی ہوئی صف کو درست کرنا میرے بس میں نہیں رہا یہ ایسا وقت تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ آج ہماری فوج تباہ ہو جائے گی ۔انگلستان اور فرانس کا نام مٹ جائے گا ۔بے بسی کی حالت تھی جب تار پہنچا تو وزیر اعظم میٹنگ میں تھا اس وقت کر ہی کیا سکتا تھا ۔فوج بھی نہ تھی اگر ہوتی بھی تو اتنی جلدی بھیجی ہی نہ جا سکتی تھی ۔یورپ کا مذہب بے شک عیسائیت ہے چھان بین کی جائے تو بالکل کھوکھلا ہے اور عملا دہریہ پن ہے اور اپنے وسائل پر مان تھا اور حکومت کرنے والوں کو تو بہت گمنڈ ہوتا ہے خدا تعالیٰ کا خانہ برائے نام ہی ہوتا ہے ۔اس نے بھی محسوس کیا کہ اب کوئی ظاہری مدد نہیں ہو سکتی جو ہم کو اس سے نجات دلا سکے اس نے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور کہا کہ دعا کریں گھنٹوں کے بل جھک کر دعا کرنے لگے ۔فرمایا کیا تعجب ہے وہ اس دعا کے نتیجہ میں ہی اس تباہی سے بچ گئے ہوں ۔مشکل وقت میں ہر ذات ساتھ چھوڑ جاتی ہے خدا ہی کام آتا ہے اس وقت ۔اضطرار میں کی گئی دعائیں قبول ہوتی ہیں چاہے وہ دہریہ ہی ہو ۔ دہریوں کو بھی بعض دفعہ خدا تعالیٰ اپنی موجودگی کا نشان دکھاتا ہے ہاں اگر کوئی کسی نبی یا جماعت کا مقابلہ کرے چاہے وہ اضطرار کی حالتیں ہوں وہ قبول نہیں ہوتی ہیں وہ خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف ہیں ۔بہرحال جرمن اور انگستان فوج میں دونوں ایک جیسے تھے اور جرمن کو یہ اطلاع نہ ہو سکی اور انہوں نے یہ فائدہ نہ اٹھایا ۔بلکہ کمانڈر چیف نے کہا تم مجھ سے سوال نہ کرنا میدان جنگ کی یہ صورتحال ہے راستہ خالی ہے اب جاؤ اور کوئی انتظام کرو کہ عارضی طور پر کوئی صف بندی ہو جائے وہ اپنی گاڑی میں بیٹھا اور اس جگہ پر گیا جہاں غیر فوجی کارکن تھے اس نے ان کو جمع کیا اور کہا ملک کی خدمت کا بڑا شوق تھا فوج کو لڑتا دیکھ کر تم بھی جذباتی ہوتے تھے تو آؤ آج موقع ہے صف بندی کرو اور اسلحہ دیا اور ہزاروں کی تعداد میں لے گیا اور ان کو کھڑا کر دیا اس طرح چوبیس گھنٹہ گزر گئے اور فوج دوسرے علاقہ سے آگئی ۔تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا دار لوگ بھی مشکل وقت میں خدا تعالیٰ کے سہارا کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ تو وہ لوگ جو مادہ پرست ہیں وی ایسے ہیں اور جن کا دعویٰ ہی اوڑھنا بچھونا خدا کی طرف ہے تو ان کو کس قدر اس بات کی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہماری نظر ہر وقت اس کی طرف رہے ۔خدا تعالیٰ نے دعا سیکھائی جو ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے کہ کبھی ہم یہ نہ سوچیں کہ دنیاوی سہاروں کیطرف پہلے رجوع کرو اور خدا کو بعد میں ۔ہاں ظاہری تدبیر کا فرمایا کرو اور کرنی چاہیے لیکن توکل جو ہے وہ خدا کی ذات پر ہونا چاہیے ۔یہ نہیں سمندر کے طوفان میں پھنس گئے تو خدا کو پکارا۔ جب صفیں ٹوٹ گئی تو پھر خدا یاد آیا ۔بلکہ ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا سیکھائی اور فرمایا میری طرف نظر رکھو ۔ایاک نعبد و ایاک نستعین ۔حدیث میں ہے کہ جب بندہ کہتا خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ آیت میرے اور بندے کے درمیان مشترق ہے ۔جو مانگتا ہے وہ دیتا یہ مستقل تب ہوگی جب آپ خالص ہو کر مستقل اس کی طرف نظر رکھیں گے ۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم احمدی ہیں اور ہم نے زمانہ کے امام کے ہاتھ پر عہد بیعت کیا ہے ہم نے اپنے ہر قول و فعل کو خدا کی رضا کے مطابق کرنے کا عہد کیا ہم نے عسر و یسر میں خدا تعالیٰ سے ہی مدد مانگنے اور غیر اللہ سے بیزاری کا عہد کیا ہے ہمیں اپنے عہد نبھانے کے لئے کس قدر ایاک نعبد وایاک نستعین کے مضمون کو سمجھنے کی ضرورت ہے ہم نے اعلیٰ مومنین کی طرح اللہ کی عبادت کرنی ہے نہ کہ دہریہ کی طرح ۔ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ ہمیں اس کے لئے کیا کرنا ہے اور کیا کر رہے ہیں کیا ہماری عبادتیں اور ہماری مدد کی پکار کا معیار وہ ہے جو خدا کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق ہے ۔روزانہ 32 مرتبہ طوطا کی طرح ایاک نعبد کہتے ہیں اور ختم ہو جاتا ہے ۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے ہم کمزور ہیں اور ہمارا دشمن بہت طاقتور ہے کوئی وسائل نہیں ہیں ہمارا صرف یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے سامنے جھک جائیں اور ایاک نعبد و ایاک نستعین کو سمجھ کر جھک جائیں آج دنیا میں ہر جگہ مشکلات کھڑی کی جارہی ہیں اور مسلمان بھی اور غیر بھی حسد میں بڑھ رہے ہیں کہ جماعت دنیا کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے ۔اور حسد کی ہلکی سی جھلک نظر آتی ہے یقینا یہ حسد اور مخالفت کی آگیں اپنی آگ میں خود جل جائیں گی لیکن ہمیں اپنے فرائض کو ادا کرنا نہیں بھولنا چاہیے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی مدد کے طلب کرنے سے کبھی ہمیں غافل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر ہم دشمن سے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے اور یہ طاقت اتنی بڑی کہ کوئی دنیاوی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اللہ تعالیٰ جب کسی کی مدد کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے ۔اس کی مدد بہت وسیع اور اس کی طاقتیں نہ ختم ہونے والی ہیں ۔اس کی ذات لا محدود اور صفات بھی لا محدود ہیں ۔اس سے مدد مانگنا ہر احمدی کا م ہے ۔یہ کام پاکستان کے احمدیوں کا ہی نہیں ہر احمدی کا یہ کام ہے کہ کامل وفا کے ساتھ اس کے سامنے جھک جائیں اور اس کے فضل کے طالب ہوں ۔جماعت مضبوط بندھن میں جڑی ہوئی ہے ہر ایک کو دوسرکے لئے دعائیں کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہر جگہ ہر وقت ہر احمدی کے شامل حال ہو ۔جب یہ حالت ہوگی تو حیرت انگیز نظارے بھی دیکھیں گے ۔ فرمایا : یاد رکھو خدا تعالیٰ بڑا بےنیاز ہے جب کثرت سے اور بار بار دعا نہ کی جائے توہ پرواہ نہیں کرتا ۔پس یہی ہماری کامیابی کا راز ہے دعا کرنی چاہیے جو مشکلات درپیش ہیں خواہ وہ کسی بھی قسم کی ہیں یا لوگ کیچڑ اچھالنے والے ہیں ان کے خلاف اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے ہم کسی اور سے امید نہیں رکھتے نہ رکھ سکتے ہیں دعا کرنی چاہیے اگر ہمارے قصوروں نے اس نصرت کو پیچھے ڈال دیا تو ہم کو معاف فرما اور ہم کو ان لوگوں میں شامل کر دے جن پر تیرے فضلوں کی بارش ہر وقت ہوتی ہے ۔فرمایا : دیکھو اللہ تعالیٰ نے ایاک نعبد کی تعلیم دی ہے ممکن تھا وہ اپنی وقت پر بھروسہ کر لیتا بلکہ ساتھ ہی ایاک نستعین کی تعلیم دے دی یہ نہ سمجھو کہ جو کچھ میں کرتا ہوں اپنی طاقت ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طاقت ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم کو اس مضمون کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی دعا کرنے کی توفیق دے ۔آمین دوبارہ دعا کے لئے یاد دہانی کرواتا ہوں دنیا کے حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو جماعت کی ترقی کا ذریعہ بنائے اور ترقی میں روک بننے والے نہ ہوں اور ہم اللہ تعالیٰ کی مدد سے فیضیاب ہونے والے ہوں اور ہوتے چلے جائیں ۔آمین
No comments:
Post a Comment