Friday, 5 December 2014

Love for All Hatred for None



بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ 05 دسمبر 2014 بیت الفتوح لندن(طالب دعا : یاسر احمد ناصر ) (سورة الحمدللہ و آیت کریمہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا :اے وہ لوگو جو ایمان لائے اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی اور ہر کسی معاملہ میں اختلاف کرو تو ایسے معاملات پر اللہ اور اس کے رسول کی طرف لٹا دیا کرو اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ۔یہ بہت اچھا طریقہ ہے ۔فرمایا : اس آیت میں اصولی بات بیان کی کہ اطاعت کے وصف کو نکھار کر دکھانا ہے اللہ کی اطاعت ہو یا رسول کی ہو یا حکام کی ۔ہاں اگر حکومت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسو ل کے واضح حکم کے خلاف حکم دے پھر اللہ اور اس کے رسول کا حکم مقدم ہے ۔لیکن مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہیں ہے ۔پھر حکام مصلح ہوں یا غیر مصلح ہوں اطاعت ضروری ہے ۔ اب اولو الامر میں گورنمنٹ حکم داخل ہے ۔جو ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ اس میں داخل ہے ۔اشارة النص کے طور پر قرآن سے ثابت ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہیے ۔پس اس زمانہ کے حکم و عدل نے واضح فرما دیا سوائے خدا اور اس کے رسول کے حکموں کی نفی کرنے والے احکامات کے دنیاوی حکامات میں ایک مومن کا کام ہے کہ مکمل طور پر ملکی قوانین کی پابندی کرے ۔اگریہ سنہری اصول اس وقت کے مسلمان بھی اپنا لیں تو بہت سے ملکوں میں فساد کی صورت میں آسانی آتی ہے ۔اس بحث میں پڑے بغیر کہ حکمرانوں کاکتنا قصور ہے اور فساد والے کا کتنا قصور ہے ایک اقتباس آپ کے سامنے رکھوں گا ۔اطاعت اور اسلام کے بارہ میں حضور کا ایک اقتباس آپ کے سامنے رکھونگا ۔اس زمانہ میں احمدی ہی صحیح اطاعت کا نمونہ دکھا سکتے ہیں ۔فرمایا :کہ یعنی اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو ۔اطاعت ایک ایسی چیز ہے اگر سچے دل سے اختیار کی جائے دل میں نور اور روح میں ایک لذت آتی ہے ۔مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے ہاں شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو ۔یہی مشکل امر ہے ۔اطاعت مین اپنے حوائے نفس کو زبح کرنا ضروری ہے اس کے بغیر اطاعت نہیں ہو سکتی ۔حوائے نفس بڑے بڑے عبادت گزاروں کے دل میں بت بن سکتی ہے ۔صحابہ ؓ کیسے اور کس قدر اطاعت رسولﷺ میں فنا تھی ۔کوئی قوم ،قوم نہیں کہلا سکتی جب تک وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے ۔اور اگر اختلاف رائے اور پھوٹ رہے تو یہ تنزل کے نشانات نہیں ۔پھر ذوال ہی ذوال ہے ۔ایک کی ہی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نےحکم دیا ہے جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتا ہے ۔صحابہ ؓ بڑے بڑے اہل رائے تھے وہ اصول سیاست سے بھی خوب واقف تھے ۔جب بعد میں صحابہ کرام ؓ خلیفہ ہوئے انہوں نے جس خوبی سے سلطنت کو سنبھالا ہے اس سے واضح ہے کہ وہ کیسے قابل تھے مگر رسول کریم ﷺ کے حضور ان کا یہ حال تھا جہاں آپ ﷺ نے فرمایا اپنی تمام راؤں اور دانش کو اس کے سامنے حقیر سمجھا اور جو کچھ آپ ﷺ نے فرمایا اس کو واجب الاطاعت سمجھا پانی میں برکت ڈھونڈتے تھے اور لعاب میں برکت پاتے ۔اگر ان کا یہ معیار نہ ہوتا تو وہ مراتب عالیہ کو نہ پاتے ۔میرے نزدیک شیعہ سنی جھگڑوں کو مٹا دینے کے لئے یہی کافی ہے کہ صحابہ کرام ؓ میں کسی قسم کی پھوٹ نہ تھی ۔ان کی ترقی اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ وہ باہم ایک تھے ۔نا سمجھ مخالفتوں نے کہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ۔مگر یہ غلط ہے اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے بہہ نکلی تھیں یہی وجہ تھی کہ انہوں نے دوسروں کو تسخیر کر لیا ۔میرا یہ مذہب ہے کہ تلوار اپنی حفاظت کے لئے تھی اگر تلوار نہ اٹھاتے تو زبان سے ہی دل کو فتح کر لیتے ۔وہ بات جو دل سے نکلتی ہے وہ اس میں کوئی شک نہیں وہ دل پر ضرور اثر کرتی ہے ۔انہوں نے ایک صداقت کو سچے دل سے قبول کیا تھا کوئی تکلف نہ تھا ۔اس کا صدق ہی کامیابی کا راز تھا ۔صادق اپنے صدق سے کام لیتا ہے ۔آپ ﷺ کی جماعت نے اطاعت کا وہ نمونہ دکھایا کہ جو ان کو دیکھتا تھا وہ بے اختیار ہو کر ان کی طرف چلا آتا تھا ۔غرض صحابہ ؓ جیسی وحدت اور صدق کی ضرورت اب بھی ہے ۔کیونکہ یہ جماعت اسی جماعت کے ساتھ ملی ہوئی ہے ۔تم جو مسیح موعود ؑ کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو تو وہ نموہ دکھائے ہر رنگ میں ہر صورت میں صحابہ ؓ کی شکل اختیار کرو ۔ حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : اس اقتباس میں آپ ؑ نے بہت سی باتوں کی وضاحت فرما دی ۔پہلی بات کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور پھر سرداروں اور حکومت کی اطاعت کرو ۔اس میں نظام جماعت اور حکومت بھی آجاتا ہے ۔خلافت کی اطاعت ان دونوں سے اوپر ہے ۔نظام جماعت خلافت کے تابع ہے ۔یہ خلافت کی خوبصورتی ہے کہ بعض دفعہ کارکنوں اور افراد جماعت میں کوئی مسئلہ پیدا ہو جائے تو خلیفہ وقت اس کو دور کرتا ہے یہ اس کے فرائض میں شامل ہے ۔یہ بھی واضح ہو ۔خلافت کی اطاعت حکومت سے بھی اوپر ہے ۔خلیفہ وقت ملکی قوانین سب سے زیادہ پابندی کرنے والا اور کروانے والا ہے ۔حکومت کے دنیاوی نظام کے اندر روحانی نظام بھی چلتا ہے اور چل رہا ہے اور ہم اس کا حصہ ہیں ۔امام الزمان کے نظام کو جاری کرنے کے لئے خلافت کا نظام بھی جاری ہے ۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ خلافت کا نظام جاری ہے ۔ورنہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لٹانے کے بارہ میں اپنی اپنی فرقوں کی تفسیریں ہیں جو بعض معاملوں کو سلجھانے کی بجائے الجھانے والی ہیں ۔احمدیوں کو خلافت کی وجہ سے شکر جتنا کریں وہ کم ہے اور اس کا اظہار خلافت کی اطاعت سے ہی ہو سکتا ہے ۔جیسا فرمایا اطاعت سچے دل سے کی جائے دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے ۔کیا دل میں نور اور روح میں لذت آرہی ہے اگر ہر ایک خود اس پر غور کرے تو وہ خود اپنے معیار اطاعت کو پرکھ لے گا ۔وہ کس قدر اطاعت کر رہا ہے اور کس قدر مسیح موعود ؑ کے ذریعہ قائم کردہ نظام خلافت کی اطاعت کر رہا ہے ۔اگر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد نور حاصل نہیں ہوتا تو اس کی اطاعت کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔حکومت کی اطاعت سے امن پیدا ہوگا مگر نور روحانی نظام کی اطاعت سے ہے ۔انسان جتنے چاہے مجاہدات کرے اگر اطاعت نہیں تو وہ روشنی اور زندگی کا سکون نہیں پا سکتا ۔پس جو لوگ اپنی نمازوں اور عبادتوں پر بہت مان کرتے ہیں اور اطاعت سے باہر نکلتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث نہیں بن سکتے ۔پھر ایک بات فرمائی کہ اطاعت کے لئے تکبر انانیت کو مارنا ہوگا ۔اپنی خواہشات کو اللہ کی مرضی کے سامنے کرنا ہوگا ۔صحابہ ؓ نے سچی اطاعت کے بعد ہی اپنی عبادتوں کو نتائج حاصل کئے جو آج ہمارے لئے نمونہ ہیں ۔حدیث ہے ۔اگر حبشی غلام بھی امیر ہو تو اس کی اطاعت کرو ۔حضور ؑ نے قومی ترقی کو بھی اطاعت سے باندھا ہے ۔کوئی قوم قوم نہیں کہلا سکتی جب تک وہ اس اصول کو اختیار نہ کرے ۔ترقی جماعت کے ساتھ ،امام وقت کی بات کو سننے اور اطاعت کے ساتھ ملنی ہے ۔اگر آج مسلمان یہ بات سمجھ لیں تو کوئی دنیا کی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ہم جو احمدی کہلاتے ہیں ان کے لئے کامل اطاعت کرنی چاہیے ۔ حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا :روحانی نظام کے لحاظ سے اطاعت بہترین انجام کی طرف لے جاتی ہے اور انقلاب پیدا کرتی ہے۔ لیکن دنیاوی نظاموں میں بھی فرمانبرداری کی روح کیسے کیسے کام کرتی ہے ۔نپولین کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ عروج سے زوال کی طرف جاتے ہوئے فرانس کو سنھبالا۔اس نے کہا تفرقہ ختم کرو اور اطاعت اپنے اندر پیدا کرو تو ترقی کرو گے ۔چنانچہ ملک کے خیر خواہ لوگوں نے اس کی بات مان لی اور اس کو لیڈر بنا لیا اور پھر انہوں نے اطاعت کا بہترین نمونہ پیدا کیا ۔کہا جاتا ہے کہ اس نے نپولین کی اپنی زندگی کو ہی بدل دیا ۔جب عملی طور پر اطاعت اس کے سامنے آئی اس نے اپنے آپ کو بدل لیا ۔ایک وقت آیا کہ بڑی جنگ کے بعد ہار گیا اور اٹلی کے جزیرہ میں قید کر دیا گیا ۔دوبارہ آزاد ہو کر فرانس میں آیا اس وقت نیا نظام تھا بادشاہ نے پادریوں کو بلا کر ان کے ذریعہ قسمیں لیں تھیں کہ وہ نئی حکومت کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں گے ۔بائبل پر ہاتھ رکھوا کر قسمیں لی تھیں بادشاہ جانتا تھا کہ وہ واپس آگیا تو لوگ اس کے ساتھ مل جائیں گے جب وہ واپس آیا تو وہاں اس نے اپنے ارد گرد لوگوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا جو اس کے وفادار تھے ۔جمع کرنا شروع کر دیا ۔وہ نا تجربہ کار تھے ۔اس کو پتہ چلا کہ فوج کے ساتھ بھیجا کہ اس کو ختم کریں ۔اتفاقا ان کا آمنا سامنا ایسی جگہ ہوا جہاں ایک تنگ درہ تھا ۔نپولین نے حکم دیا کہ گولیوں کی بارش نے ختم کر دیا ۔پھر اور بھیجے آخر سپاہیوں نے کہا کہ آگے کی کوئی صورت نہیں ہے ۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے بائبل پر قسمیں کھائی ہیں ۔حملہ نہیں کر سکتے ہیں اطاعت اور فرمانبرداری کا جذبہ پیدا کیا تھا ۔ان سے کہو کہ نپولین کہتا ہے کہ راستہ چھوڑ دو ۔ہم نے بائبل پر قسمیں کھائی ہیں ہم اس کا حکم نہیں مان سکتے ہین ۔اس کو یقین نہ آیا ۔آخر نپولین خود گیا اور دیکھوں گا کس طرح میری بات نہیں مانتے ۔میں نپولین ہوں تم سے کہتا ہوں راستہ چھوڑ دو ۔ہم نے وفاداری کی قسم کھائی ہے ۔نپولین نے کہا میری فوجوں نے تو بہرحال آگے جانا ہے اگر تم میرا سکھایا ہوا سبق بھول گئے ہو جس کا دل چاہتا ہے اپنے بادشاہ پر گولی مارو ۔جب نپولین نے یہ کہا تو پرانا جذبہ واپس آگیا ۔اور زندہ باد کا نعرہ لگایا اور اس کے ساتھ مل گئے ۔جب خبر جنرل کو ملی تو اس کے کان میں نپولین کے کان میں آواز پڑی تو وہ فوج اور جنرل بھی اپنا بعد کا اقرار بھول کر اس کے ساتھ شامل ہو گئے ۔بہرحال یہ نپولین کی کوششیں تھیں کہ فرانس کے شدید تفرقہ کو فرمانبرداری میں جذبہ پیدا کر دیا ۔ حضرت مصلح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ نپولین کے پاس وہ تائید نہ تھی جو سچے مذہب کے پاس ہوتی ہے ۔پھر بھی اس نے انقلاب پید ا کیا لیکن بیعت کا مفہوم ہی اپنے آپ کو فنا کرنا ہے ۔یہ گر ایسا ہے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اس پر عمل نہ کرے وہ کامیاب نہیں ہو سکتی ۔اس ارشاد کو ہر وقت سامنے رکھنے کی ضرورت ہے قوم بننے کے لئے اطاعت بہت ضروری ہے ۔قرآن نے بھی فرمایا ہے کہ اللہ کی رسی کو پکڑو اور تفرقہ نہ کرو اور اس کی نعمت کو یاد کرو جب تم دشمن تھے اس نے تم کو بھائی بھائ بنا دیا اور آگ سے بچا لیا ۔یہ واضح ارشاد ہے اللہ کا مگر اس واضح ارشاد کے باوجود مسلمان کی بد قسمتی ہے کہ تفرقہ کی انتہا تک پہنچ چکے ہیں اور انعامات کو بھلا دیا اس وجہ سے تنزل ہو رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے ۔جب تک یہ وحدت قائم نہں ہوگی نہ خدا ملے گا نہ دوسری کامیابی ۔خدا تعالیٰ بھی وحدت والوں کو ملتا ہے ۔ہمیں بھی اس بات پر راضی نہیں ہو جانا چاہیے ہم نے بیعت کر لی ہے بلکہ بیعت کے معیار کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔بیعت کا مطلب ہے بک جانا ۔حضور ؑ نے حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کی مثال دے کر بتایا کہ لوگ بہت عاقل تھے وقت پر یہ خوبی واضح بھی ہوئی لیکن رسول کریم ﷺ کی زندگی میں لگتا تھا ان کو کچھ معلوم نہیں مکمل اطاعت تھی ۔ ایک واقعہ تاریخ میں ہے حضرت ابو عبیدہ ؓ کو حضرت عمر ؓ کا خط ملا اور جس میں ابو بکر ؓ کی وفات کا ذکر تھا اور حضرت خالد بن ولید ؓ کو معزول کرتے ہوئے مگر آپ نے اطلاع نہیں کی جب تک اہل دمشق سے صلح نہیں ہوئی اور معاہدہ صلح کے دستخط کروائے ۔جب حضرت خالد بن ولید ؓ کو پتہ چلا تو انہوں نے شکوہ کیا تھا ۔آپ ؓ ٹال گئے اس موقع پر حضرت خالد بن ولید ؓ نے کہا تم پر اس امت کے امین مقرر ہوئے ہیں ۔حضرت ابو عبیدہ ؓ نے جواب میں کہا خالد خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے ۔یہ تھا خوش دلی سے خلیفہ وقت کے فیصلوں کو ماننا ۔بعض دفعہ ایسے ہیں عہدہ سے ہٹایا جائے تو سوال ہوتا کیوں ہٹایا اگر یہ نمونے سامنے ہوں تو کبھی یہ سوال نہ اٹھیں ۔ہم کو یاد رکھنا چاہیے کہ آج بھی وہی قرآن ہے اور اس رسول کی پیروی کرتے ہیں ۔جس کی راہنمائی ہم کو ملتی ہے ۔لیکن مسلمانوں کی حالت کیا ہے ۔آپس میں فتنہ ہے یا پھر دنیا کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں ۔ حضور ؑ نے فرمایا ۔شیعہ سنی کے جھگڑ ے ہیں یہ اطاعت سے باہر نکلنے کی وجہ سے زوال ہے ۔اگر آج ایک ہو جائیں تو یہ اعتراض بھی ختم ہو جائے ۔کہ تلوار کی وجہ سے پھیلا تھا ۔پس آج بھی اس اتحاد کی ضرورت ہے ۔خاص طور پر مسیح موعود کی جماعت کو توجہ دلائی کہ تم صحابہ ؓ کا نمونہ پیدا کرو ۔یہ اس وقت ہو گا جب کامل اطاعت اور فرمانبرداری ہر ایک اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرے گا ۔اگر اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت ہو گی تو اس نور سے بھی حصہ ملے گا جو رسول کریم ﷺ کو ملا تھا ۔یہ بہت بڑی زمہ داری ہے ایک احمدی کی کہ بیعت میں آخر اطیعواللہ و اطیعو الرسول کا نمونہ بنے کہ دنیا ان کو دیکھے ۔یہی وہ حربہ ہے جس سے دنیا کو جیتا جا سکتا ہے ۔دنیا کو اللہ اور اس کے رسول کے قدموں میں ڈال سکتے ہیں ۔دنیا کے فساد ختم ہو سکتے ہیں ۔ہم میں قرآن موجود ہے روحانی نظام بھی ہے ۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے میں اور دوسروں میں ایک نمایاں امتیاز پیدا نہ کر سکیں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دےاور جو امیدیں ہم سے حضرت مسیح موعود ؑ نے رکھی ہیں ہم ان پر پورا اتریں۔آمین

No comments:

Post a Comment