Friday 20 February 2015

Love for All Hatred for None



بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ20 فروری 2015 بیت الفتوح لندن(مرتب کردہ : یاسر احمد ناصر ) ( تشہد و سورة الحمدللہ بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا :آج 20 فروری کا دن ہے اور یہ دن جماعت میں پیشگوئی مصلح موعود ؓ کے حوالہ سے جانا جاتا ہے ۔حضرت مسیح موعود ؑ نے اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے نشان مانگا تھا کیونکہ غیر مسلموں کو اور ان کے اسلام پر حملے انتہا پر تھے ۔اس لئے آپ ؑ نے چلہ کشی فرمائی اور غیر معمولی نشان کی خبر دی ۔اس کی تفصیلات کا ذکر نہیں کرونگا کئی خطبات دے چکا ہوں ۔ہر سال جماعت میں پیشگوئی مصلح موعود ؓ کے جلسہ ہوتے ہیں اس بارہ میں ان جلسوں میں بھی بیان ہوتا ہے ۔یہ سامنے آتی رہتی ہے اور اس سال بھی آئے گی ۔آج میں حضرت مصلح موعود ؓ کے اپنے الفاظ میں جو آپ نے فرمایا وہ میں آپ کے سامنے رکھونگا۔تمام باتیں تو بیان نہیں کی جا سکتی ۔ 1944 میں پیشگوئی مصلح موعود کا پس منظر بیان کرنے کے لئے ہوشیار پور میں جو مکان میری انگلی کے سامنے ہے ایک ایسے مکان میں جو اس وقت رہائش کا بھی اصلی مکان نہ تھا بلکہ کسی رئیس کا مکان تھا ۔جس کو وہ کبھی کبھی اپنے استعمال میں لاتا ۔اور قادیان کا ایک گمنام شخص جولوگوں کی مخالفت کو دیکھ کر خدا سے نصرت اور تائید کا نشان طلب کیا اور 40 دن دعا کی ۔اور اس دعا کے بعد خدا نے ایک نشان دیا ۔وہ یہ تھا بلکہ یہ تھا کہ میں تمہارے نام کو پوری دنیا تک پنہچاؤنگا ۔اور اس وعد ے کو پورا کرنے کے لئے بیٹا دیا جائے گا وہ اسلام کو پھیلائے گا کلام الہی کے معارف بتائے گا رحمت و فضل کا نشانہ وگا دینی و دنیاوی علوم اسلام کی اشاعت کے اسے عطا کئے جائیں گے طویل عمر پائے گا اور دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ پھر فرمایا :معترض اعتراض کرتے ہیں کہ جب یہ اشہتار شائع ہوا ۔تو دشمن نے اس پر بھی اعتراضات کا سلسلہ کیا 22 مارچ 1886 کو ایک اور اشتہار کیا ۔ایسی پیشگوئی کا کیا اعتبار کیا جا سکتا ہے ۔کیا لوگوں کو لڑکے نہیں ملتے ہیں ۔عام طور پر لڑکے پیدا ہوتے ہیں کبھی پیدائش کو خاص نشان نہیں ۔اس سے کیا سچائی ثابت ہو گئی ۔آپ ؑ نے فرمایا یہ پیشگوئی ہی نہین ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے ۔یہ خدا تعالیٰ نے محمد ﷺ کی صداقت اور عظمت کے لئے ظاہر کیا ہے ۔اور اسی میں فرمایا اللہ کے فضل اور محمد ﷺ کی برکت سے خداوند کریم نے اس عاجز کی دعا قبول کرک ے بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا ہے ۔جو سے برکت ہو گی ۔اگر صرف خبر صرف بیٹے کی ہوتی ہو کیونکہ دنیا میں ایک حصہ بغیر اولاد کے ہے ۔دوسرا جب آپ نے اعلان کیا اس وقت عمر 50 سال سے اوپر تھی ۔ہزاروں لوگ ہیں جو 50 سال کے بعد اولاد نہیں ہوتی پھر لڑکیوں کو ہی جنم دینے والے پھر لڑکے پیدا ہوتے ہیں پیدا ہونے کے بعد مر جاتے ہیں اور سارے شبہات اس جگہ موجود تھے ۔اول لڑکے کی پیدائش کی خبر دینا انسانی طاقت نہیں ۔اگر مان بھی لیا جائے یہ پیشگوئی نہں تو سوال یہ ہے کہ میں نے مہض ایک لڑکے کی کب خبر دی ہے میں نے یہ تو نہیں کہا میرے ہاں لڑکا ہوگا بلکہ یہ کہا ہے میری دعا کے بدولت ایک با برکت روح کا وعدہ ہے جو تمام زمین کو با برکت کر ےگا۔یہ خلاصہ تھا اس الہام کا ۔پھر دیکھا کس طرح حضرت مصلح موعود ؓ کی برکتیں پھیلیں ۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ مصلح موعود نہیں ہیں بلکہ بعد میں بھی مصلح موعود پیدا ہوگا ۔آپ ؓ نے فرمایا وہ کسی آئندہ نسل میں سے تین چار سو سال بعد آئے گا ۔ان میں سے کوئی خدا کا خوف نہیں کرتا حضور ؑ تو فرماتے ہیں کہ اس وقت اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام ک اندر کوئی نشانی نمائی نہیں پیڈت لیکھرام ،اندر من اعتراض کر رہا تھا پھر آپ ؑ جھکتے ہیں اور نشان مانگتے ہیں اور اسلام کا قائل کرنے کے لئے اور ایسا نشان دکھانا جو ان کو قائل کر دے اور یہ معترض بتاتے ہیں جب آپ نے دعا کی تو آپ کو خبر دی آج سے تین سو سال کے بعد بیٹا ہوگا اور صداقت کا نشان ہوگا۔ کیا کوئی بھی شخص اس بات کو معقول قرار دے سکے ۔یہ ایسی بات ایک پیاسا ہو کسی سے پانی مانگے اور وہ کہے صاحب آپ گبھرائیں نہیں میں نے امریکہ خط لکھا ہوا اس سال کے آخر پر اعلی پانی آئے گا اور آپ کو شربت دیا جائے گا ۔کوئی پاگل بھی ایسی بات نہیں کر سکتا۔اس دور کے لوگ اسلام کے خدا سے دعوی مانگ رہے ہیں پھر آپ رحمت قدرت کا نشان مانگتے ہیں اور یہ نشان قریب ہی ہونا چاہیے تھا پھر 1889 میں میری پیدائش ہوئی تو وہ لوگ زندہ موجود تھے پھر جوں جوں بڑھا اللہ کے نشانات ظاہر ہوتے چلے گئے ۔پھر آپ ؓ اپنی ایک رویا کا زکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔مین نے دیکھا کہ میری زبان پر فقرہ جاری ہوا انا المسیح الموعود و مثیلہ و خلیفتہ خواب میں بھی میری ایسی کیفیت ہو گئی کہ میں جاگ اٹھتا ۔گو اس روز میں یہ اشتہار پڑھ کر آیا تھا ۔خطبہ کے بعد دوسرے دن یہ توجہ دلائی کہ مسیح موعود ؑ کے اشتہار میں لکھا ہے کہ وہ دنیا میں آئے گا اور مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو صاف کرے گا ۔دوسرا رویا دیکھا کہ میں نے بت تڑوائے ہیں ۔اس کا اشارہ بھی پیشگوئی میں ہے کہ وہ روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا ۔روح الحق توحید کی روح ہوتی ہے ۔اصل چیز خدا تعالیٰ کا وجود ہی ہے ۔باقی سب اظلال ہیں ۔سایے ہیں ۔تیسرا میں نے یہ بھی دیکھا کہ میں بھاگ رہا ہوں ۔خطبہ میں دیکھا کہ بھاگ رہا ہوں اور زمین میرے قدموں تلے سمٹتی چلی جاتی ہے ۔پسر موعود کی پیشگوئی میں بھی یہ الفاظ ہیں وہ جلد جلد بڑھے گا ۔رویا میں دیکھاکہ میں بعض غیر ملکوں کی طرف گیا ہوں ۔وہاں کام ختم نہیں کیا بلکہ آگے جانے کا کہہ رہا ہوں ۔جب واپس آؤنگا تو دیکھونگا کہ تم نے توحید کو ختم کر دیا ہے یا نہیں ۔حضور ؑ کے کلام میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ پھر یہ ذکر ہے کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا ۔خواب میں بڑے زور سے کہہ رہا ہوں میں وہ ہوں جس سے علوم اسلام اور علوم عربی ماں کی گھود میں دونوں چھاتیوں سے پلائے گئے ۔پھر رویا میں مری زبان سے خدا تعالی نے بولنا شروع کر دیا پھر رسول کریم ﷺ تشریف لائے اپ نے میری زبان سے بولنا شروع کر دیا اور پھر مسیح موعود ؑ نے بولنا شروع کر دیا یہ جلال اللہ کا ظہور تھا ۔پھر صاحب شکوہ اور دولت ہوگا ۔رویا میں دکھایا گیا کہ ایک قوم میں لیڈر مقرر کرتا ہوں اور ایک طاقتور بادشاہ کہہ رہا ہو اے عبد الشکور تم میرے سامنے اس بات کے ذمہ دار ہو گے کہ تمہارا ملک قریب ترین شرک کو ترک کرے اور ارشادات مسیح ؑ کو مد نظر رکھے ۔یہ صاحب شکوہ کے کلمات ہی ہو سکتے ہیں ۔اس میں روح ڈالنا سے مراد میں رویا میں دیکھا کہ میں نہیں بولتا بلکہ خدا بول رہا ہے ۔پھر رویا میں سمجھتا ہوں کہ ہر قدم جو اٹھا رہا ہوں وہ پہلی وحی کے مطابق اٹھا رہا ہوں ۔آئندہ جو سفر کرونگا وہ کسی سابق وحی کی وجہ سے ہوگا اس میں اشارہ تھا کہ یہ پیشگوئی مصلح موعود ؓ کے متعلق جو ابہام رکھا گیا کس کی پیشگوئی تھی ۔یہ مشابہتیں ہیں ۔ 1936 کی شوریٰ سے خطاب کے دوران فرمایا :تقریبا 8 سال پہلے کا ذکر ہے ۔اس وقت ہماری جماعت کے لئے خلافت کا ہی سوال نہیں دو اور سوال بھی ہیں ایک قرب زمانہ نبوت کا اور دوسرا موعود خلافت کا سوال ۔دونوں باتیں ایسی ہیں جو ہر خلیفہ کے ماننے والے کو نہیں مل سکتیں ۔آج سے سو دو سو سال بعد یہ باتیں حاصل نہیں ہو سکیں گی ۔خلفاء بھی اس بات کے محتاج ہونگے کہ آپ کے قول اور میرے قول سے ہدایت حاصل کریں ۔فرماتے ہیں وہ خلفاء ہونگے مگر کہں گے کہ زید نے فلاں خلافت کے زمانہ میں یہ کہا تھا ۔ہمیں بھی اس پر عمل کرنا چاہیے ۔یہ خلافت کا سوال نہیں بلکہ موعود خلافت کا سوال ہے ۔ایک خلافت تو یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں سے خلیفہ منتخب کرواتا اور قبول کر لیتا ہے مگر یہ ایسی خلافت نہیں ۔مجھے خلیفہ بنایا ۔بلکہ اس لئے خلیفہ ہوں کہ مسیح موعود ؑ نے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہونگا ۔میں موعود خلیفہ ہوں میں مامور نہیں میری آواز خدا تعالیٰ کی آواز ہے ۔اس کی خبر دی جا چکی تھی ۔اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے ۔موعود خلیفہ بھی روز روز نہیں آتے۔آپ مصلح موعود ؓ ہیں تو اعلان کیوں نہیں کرتے ۔لوگوں نے کوشش کی ہے کہ دعوی کروائیں ۔میں نے کبھی ضرورت نہیں سمجھی ۔میں دعویٰ کی ضرورت نہیں سمجھتا ۔اگر میں مصلح موعود ہوں تو میرے دعوی سے کوئی فرق نہیں ۔ کیا مجدیدین نے کبھی دعوی کیا دعوی مامور کے لئے ضروری ہے ۔غیر مامور کے کام کو دیکھو اگر کام ہوتا پورا آجائے تو وہی مصداق ہوگا۔ہاں جو گرتے ہوئے اسلام کو کھڑا کر دے اسے پتہ بھی نہ ہو ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجدد ہے ۔یہ مجدد کا کام ہے ۔مامور مجدد وہی ہے جو دعوی کرے ۔جیسے مسیح موعود ؑ نے کیا ۔میری طرف سے کوئی دعویٰ کی ضرورت نہیں ہے ۔اصل عزت خدا تعالیٰ کی طرف ملتی ہے اگر وہ خدا تعالیٰ کے راستہ میں چلے تو وہ ضرور کامیاب ہوگا ۔ 1944 میں جب دعوی کیا فرمایا میں نے لوگوں کو ہمیشہ کہا ہے کہ پیشگوئی اپنے مصداق کو آپ ظاہر کرتی ہیں اگر یہ میرے متعلق ہین تو زمانہ خود بخود گواہی دے دےگا۔دونوں صورتوں میں گواہی کی ضرورت نہیں۔دنیا نے یہ سوال اتنی دفعہ کیا اور لمبا عرصہ گزر گیا ۔اس لئے لمبے عرصہ کی طرف بھی الہامات موجودہ ہیں ۔حضرت یعقوب ؑ کے بارہ میں حضرت یوسف ؑ نے کہا تھا کیا تم اتنا کرے گا کہ ہلاک ہو جائے ۔الہام کا ہونا یوسف کی خوشبو آ رہی ہے ۔لمبا عرصہ ہوگا ۔اگر مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے موت تک بھی علم نہ دیا جاتا تو کوئی حرج نہ تھا ۔تائیدی الہام کا ہونا ایک زائد امر ہے ۔اگر خدا تعالیٰ نے مجھے علم دے دیا تو آج میں نے پہلی دفعہ منگوا کر اس نیت سے دیکھیں کہ کیا کچھ ان میں بیان ہے ۔ہماری جماعت کے دوست چونکہ میری طرف منسوب کیا کرتے تھے میں ڈرتا تھا ان کو غور کرنے سے آج پہلی دفعہ پڑھی اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے کہہ سکتا ہوں یہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے پوری کی ہے ۔یا وہ وقت تھا کہ ضرورت نہ تھی آپ کو پھر آپ پر واضح فرما دیا آپ نے اعلان کیا ۔ آپ نے فرمایا میں کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں میں پی پیشگوئی مصلح موعود کا مصداق ہوں ۔میں ہی ہو جو سمجھتا ہےوہ کہ جھوٹ بولا ہے تو وہ آئے اور میرے ساتھ مباہلہ کر لے یا پھر خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر اعلان کر دے تو پھر خدا تعالیٰ خود بخود فیصلہ فرما دے گا۔ اک حصہ تھا ۔وہ علوم ظاہر ی سے پر کیا جا ئے گا۔آپ ؓ فرماتے ہیں کہ اس پیشگوئی کا مفہوم ہے وہ علوم سیکھے گا نہیں ۔بلکہ خدا تعالیٰ سکھائے گا۔مہارت کے الفاط نہیں بلکہ پر کرنے کے ہیں کہ کوئی اور اس کو علوم سکھائے گی ۔اس کی اپنی کوشش نہ ہوگی ۔یہاں علوم ظاہری سے مراد حساب وغیرہ نہیں پر کیا جائے گا کہ الفاظ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سائنس اور جغرافیہ نہیں بلکہ دین اور قرآن سیکھایا جاتا ہے ۔پس ان کا یہ مطلب ہے کہ اس کو علوم دینینہ اور قرآنیہ سکھائے جائیں گے خدا خود اس کا معلم ہوگا ۔میری تعلیم جس رنگ میں ہوئی ہے وہ ظاہر کرتی ہیں کہ انسانی ہاتھ نہیں تھا ۔میری تعلیم کے سلسلہ میں سب سے زیادہ احسان خلیفہ اول کا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتہ کے ذریعہ قرآن کا علم دیا ہے ۔مجھے ایسا ملکہ دیا ہے جیسے کسی کو کنجی مل جاتی ہے ۔دنیا کا کوئی عالم نہیں جو میرے سامنے آئے اور میں قرآن کی فضیلت ظاہر نہ کر سکون ۔میں لاہور کے تمام علماء سے کہتا ہوں کوئی بھی دنیا کا پروفیسر اور سائنسدان آجائے قرآن پر حملہ کر کے دیکھ لے میں اس کو ایسا جواب دے سکتا ہوں کہ دنیا تسلیم کرے گی کہ اس کے اعتراض کا رد ہو گیا اور دعوی کرتا ہوں کہ قرآن کریم سے جواب دیا جائے گا۔ آپ ؓ نے ایک مضمون لکھا تھا کہ احمدیت کا پیغام ۔اس میں آپ نے فرمایا : خود راقم الحروف نے کئی علوم فرشتوں سے سیکھے ہیں ایک دفعہ سورة فاتحہ کی تفسیر پڑھائی اور اب تک اتنے علوم ہیں کہ حد ہی نہیں کسی مذہب و ملت کا آدمی جو کچھ ساری کتاب سے وہ نکال سکتا ہے اس سے بڑھ کر میں سورة فاتحہ سے نکال سکتا ہوں ۔ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت ۔شریعت کاملہ کی علامات ۔بنی نوح انسان کے لئے ضرورت ۔دعا ،جنت و دوزخ ،تقدیر ،رسالت اور اس کی ضرورت وغیرہ سب کے سب سورة فاتحہ سے ایسی روشنی پڑتی ہے کہ دوسری کتاب کے سیکنڑوں صفحات بھی ایسی روشنی نہیں ڈالتے ۔پھر فرمایا عہدہ خلافت کے بعد ایسے علوم مجھ پر کھولے ۔کہ دنیا قیامت تک اس بات کی محتاج ہے کہ میری باتوں کو سنے اور پڑھے ۔ہر ایک علم کو میرے ذریعہ سے کھولا ہے ۔تیسرہ سو سال میں مجھے ہی یہ خدمت ملی اور مجھ سے قرآن کے معارف کھولے ۔مجھے کوئی لاکھ گالیاں دے مجھے لاکھ برا بھلا کرے جو اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے وہ میری کتب سے ہو کر جائے گا۔ میں بغیر فخر کے کہہ سکتا ہوں کہ سارے خلفاء کا مواد مجھ سے ظاہر ہوا ہے اور ہو رہا ہے ۔آپ کے استاد آپ کے درس میں آتے تھے نکات ملتے ہیں ۔ پھر فرمایا : 1907 میں سب سےمیں سورة لقمان کا دوسرا رکوع پڑھا اور تفسیر بیان کی یہ پہلی پبلک کے سامنے تقریر تھی ۔پھر اس وقت خلیفہ اول بھی موجود تھے انجمن کے ممبران بھی تھے ۔اور بہت سے دوست تھے ۔آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔جب میں نے تقریر ختم کرکے بیٹھا تو یاد ہے ۔خلیفہ اول نے فرمایا میاں میں تم کو مبارک باد دیتا ہوں کہ تم نے ایسی اعلیٰ تقریر کی میں نے بھی آج تقریر میں وہ مطالب سنے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں تھے ۔یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا ۔اس وقت میرا کوئی مطالعہ وسیع نہ تھا ۔وہ علوم باطنی سے پر کیا جائے گا۔اس بارہ میں بتاتا ہوں ۔ آپ ؓ فرماتے ہیں : وہ علوم مخصوصہ ہیں جو خدا تعالیٰ سے خاص ہیں ۔علم الغیب ۔وہ ایسے بندوں کو دیتا ہے کہ جس سے خدمت اسلام ہو ۔اس پر بھی خاص عنایت فرمائی ۔سینکڑوں خوابیں ہوئی ہیں ۔مسیح موعود ؑ کی زندگی میں ہی الہام ہوا ۔یعنی تجھ پر ایمان لانے والے کو تیرے مخالف پر قیامت تک غالب رہے گے ۔آپ نے وہ سنائی اور لکھ لی گئی ۔مجھے الہام ہوا ۔اس میں ان الذین کے الفاظ ہیں ۔تاکید رکھتے ہیں ۔اس کے نیتجہ میں کس کس طرح مخالفت کی اور میری فتح ہوئی ۔مجھے ایک بچہ کہہ کہہ کر منصوبہ بندی کی مگر ناکام رہے ۔میں ان باتوں سے نا واقف تھا ۔ایک دن مسجد سے آوازیں آ رہی تھیں وہ جوش سے کہہ رہے ہیں کہ تقویٰ کرنا چاہیے ایک بچہ کو آگے کر کے جماعت کو تباہ کیا جا رہا ہے ۔مجھے ان کی بات سن کر حیرت ہوئی کہ وہ بچہ ہے کون ۔میں نے باہر نکل کر پوچھا یہ کیسا شور تھا اور ایک بچہ کی خاطر سارا فساد ہے وہ بچہ کون ہے ۔وہ ہنس کر کہنے لگے وہ بچہ تم ہی ہو ۔ فرماتے ہیں ۔میرا ان کا یہ حال ہے یہ نابینا کی طرح سوچتے رہتے ہیں اب یہ کر رہا ہوگا یہ کر رہا ہوگا مجھے کچھ پتہ نہ تھا میں خدا تعالیٰ پر توکل رکھنے کے اور کچھ نہ کرتا تھا ۔حالات سے نا واقف تھا مگر پھر بھی وہ ناکام رہے اور مجھے فتح اور کامرانی دی ۔تین کو چار کرنے والے کے بارہ میں فرماتے ہیں ۔مجھ پر یہ علامت بھی چسپاں ہوتی ہے ۔مجھ سے پہلے تین بیٹے ہوئے اور چوتھا میں ہوا ۔پھر حضور ؑ کے تین بیٹے ہوئے اور چوتھا میں ہوا ۔پھر حضرت مسیح موعود ؑ کی زندہ اولاد میں سے تین بھائی ایمان رکھتے تھے ۔میری خلافت میں مرزا سلطان احمد صاحب ایمان لے آئے ۔پھر اس لحاظ سے بھی تین کو چار کرنے والا ہوں الہام کے چوتھے سال پیدا ہوا ۔1886 میں پیشگوئی کی تھی 1889 میں میری پیدائش ہوئی ۔گویا تین کو چار کرنے والی میں یہ خبر تھی کہ چوتھے سال ہوگی ۔ایسا ہی ہوا۔جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ یہ خبر بھی تھی یہ خبر بھی میرے زمانہ میں ہوئی ۔ایک جنگ ہوئی اور اب دوسری جنگ ہو رہی ہے ۔ہر کوئی بھی کہہ سکتا ہے یہ جنگیں ان کی صداقت ہے ۔تو اگر ان سب کو یہ خبر دی گئی ہے تو ہر زندہ شخص کی خبر نہں بن سکتی ۔پھر جس کو تفصیل بتائی گئی ہے اسی کو ظہور ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا خلیفہ ہوا خزانہ میں چودہ پیسے 18000 کا قرض تھا پہلا اشتہار بھی چھپوانے کے پیسے نہ تھے ۔نانا جان سے چندہ میں سے اس اشتہار کے لئے دو سو روپیہ دیا ۔مگر اس وقت سر کردہ میرے مخالف تھے جب جماعت کا خزانہ خالی تھا ۔جب انجمن کا سیکٹریری میرا مخالف تھا ۔خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ جماعت کا اتحاد میرے ہاتھ پر ہو اب کوئی اس کو نہیں روک سکتا ۔یا میری بیعت کریں اور یا پھر اپنی نفسانی خواہشات کے طفیل اس باغ کو اکھاڑ دیں ۔جو کچھ ہو چکا ہو چکا جس کو خدا نے بنایا اس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے ورنہ تفرقہ ہوگا۔مبارک ہے وہ جو خدا کے فیصلہ کو قبول کرے جو مجھ پر بوجھ ہے وہ بہت بڑا ہے اس کی مدد نہ ہو تومیں کچھ نہیں مجھے یقین ہے ہر طرح کی مخالفت ہوئی میں جماعت کو اور ترقی کی طرف لےجانے والا ۔میں اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا۔میرے ذریعہ سے ان قوموں کو ہدایت دی ان قوم کی طرف کسی کی توجہ نہ تھی ۔جیسے افریقن علاقے ہیں ۔ابھی مغربی افریقہ کے نمائندہ نے تقریر کی تھی ۔ ان کے ملک کے کافی پڑھے لکھے لوگوں نے میری بیعت کی ۔افریقہ میں کثرت سے اسلام لانے والی بنیں اور ان اسیروں کا راستگار بنایا ہے ۔پھر فرمایا ۔کشمیر کا واقعہ بھی ایک زبردست ثبوت ہے ۔کوئی بھی سنجیدگی سے غور کرے تو میرے ذریعہ ہی کشمیریوں کے راستگاری کی ۔بیٹا ہونے سے نام دنیا کے کناروں تک نہیں پہنچ سکتا تھا جب تک ایسے کام آپ سے ظاہر نہ ہوتے جس سے ساری دنیا میں مشہور ہو جاتے ۔مگر حضور ؑ نے خبر دی تھی وہ آپ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا۔اب دیکھتے ہیں تو جب میں پیدا ہوا تو دو اڑھائی ماہ کے بعد بیعت لی ۔میں نے دنیا کے مختلف اطراف میں مشن قائم کر دئے ۔جب مسیح موعود ؑ فوت ہوئے اس وقت ہندوستان اور افغانستان میں تھی ۔پھر میرے ذریعہ مختلف ممالک میں احمدیہ مشن قائم کئے ۔ان میں سے بعض دشمن کے ہاتھوں میں قید ہیں ۔کچھ بند کر دئے گئے دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو اس سے واقف نہ ہو ۔کوئی حکومت نہیں جو اس کے اثر کو محسوس کرتی ہیں ۔روس میں ہمارا مبلغ گیا سخت تکلیفیں دیں ۔(مولوی ظہور حسین روس و بخارا)ان تمام مقامات پر احمدیت کو پہنچایا اور بڑی بڑی جماعتیں قائم کر دیں ۔ پیشگوئی کے مختلف حصے ہیں جو شان سے پورے ہوئے مختلف جگہ پر پورے ہوئے اور صداقت کو ظاہر کرتے رہے اور شان کو بڑھاتے رہے اللہ تعالیٰ آپ ؓ پر اپنی رحمت ہمیشہ برساتا رہے اور ہمیں بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق دے ۔ مولانا محمد صدیق گرداسپوری مبلغ سلسلہ کا جنازہ غائب پڑھایا ۔آپ نے مختلف ممالک میں 60 سال تک خدمت کی ۔1928 میں پیدا ہوئے تھے اور 1914 میاں کرم دین صاحب نے ان کے والد تھے بیعت کی اور پھر پرائمری پاس کرنے کے بعد 1940 میں مدرسہ میں داخل ہوئے ۔پھر وہاں سے ہوشیار طلبا میں سے تھے 1952 میں شاہد پاس کیا ۔دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں سیرالیون گئے ۔آپ کی بہت خدمات تھیں ۔بہت متوکل تھے اور فرشتہ صفت تھے ان کے بچوں میں بھی وفا پیدا کرے اور خاص طور پر جو داماد اور بیٹے واقف زندگی ہیں وفا سے اپنے وقف نبانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین —

No comments:

Post a Comment