Friday 31 July 2015

Love for All Hatred for None


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ 31 جولائی 2015 بیت الفتوح لندن(طالب دعاو مرتب کردہ : یاسر احمد ناصر مربی سلسلہ ) تشہد و سورة الحمدللہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : گزشتہ دنوں ایک وڈیو دکھائی جس میں ایک مولوی بڑی عمر کے لوگوں کو قرآن پڑھا رہا تھا اور غلطی پر سوٹی سے مارتا تھا ۔اس سے کیا قرآن پڑھایا جانا ہے اگر کسی کو قرآن پڑھانا ہے تو ایسے پڑھائے کہ شوق اور محبت ہو ۔گزشتہ دنوں جاپانی خاتون نے بیعت کی اور بتایا کہ تین سالوں میں قرآن کریم مکمل کر لیا اور وہ سنانا چاہتی تھیں ۔تب آیة الکرسی انہوں نے ڈوب کر پڑھی ۔اصل چیز یہی ہے کہ کے قرآن کریم کو ڈوب کر پڑھو ۔اللہ تعالیٰ نے ٹھہر ٹھہر کر بہترین تلفظ کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ۔اگر ہم کہیں کے عربوں کی طرح الفاظ کی ادائیگی کر سکتے ہیں تو یہ مشکل ہے ۔بعض حرو ف کی صحیح ادائیگی غرض عرب کر ہی نہیں سکتے۔جاپانی قوم بھی حروف کی ادائیگی نہیں کر سکتیں ان سے بھی ح اور خ کی ادائیگی مشکل تھی ۔ان کو سن کر پتہ چلا کے بعض جاپانی ہونگے جن کو بعض حروف کی ادائیگی مشکل ہوگی ۔دکھاوے کی وجہ سے کوئی چیز نہیں ہوگی اصل چیز محبت تھی ۔رسول کریم ﷺ کو بھی سیدنا بلال ؓ کے اشھد کی بجائے اسھد میں جو محبت تھی اس کی کوئی بھی انسان مقابلہ نہیں کر سکتا ۔بہت سے لوگ جماعت میں نئے آ رہے ہیں ۔شروع سے پڑھانا پڑتا ہے ۔اس لئے قرآن کریم پڑھانے کے استاد کو اس طرح پڑھانا چاہیے کہ شوق پیدا ہو ۔اللہ تعالیٰ اس عورت کو بھی اجر دے جنہوں نے اس خاتون کو قرآن کریم پڑھایا اور ساتھ محبت بھی پیدا کی۔اگر الفاظ ادا نہ کر سکیں تو قرآن کریم چھوڑ دیں ۔یہ مناسب نہیں ہے ۔تلاوت کی طرف توجہ ہو ۔اصل کے جتنا قریب ترین الفاظ کی ادائیگی ہو سکے کی جائے اور پھر بہتری پیدا کی جائے ۔حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا کہ یہ کوشش کے ہم قاری کی طر ح ہر لفظ ادا کریں یہ درست نہیں ۔فرمایا ام طاہر بیان کرتی تھیں ان کےوالد صاحب کو قران کریم پڑھانے کا بہت شوق تھا ۔اور لڑکی کو بھی اس کے سپرد کیا تھا ۔ام طاہر بتاتی ہیں ۔وہ استاد بہت مارا کرتے تھے اور ہماری انگلیوں میں شاخیں ڈال کر ڈباتے تھے ۔مارتے تھے ۔اس لئے کہ قرآن کریم کا تلفظ کیوں ادا نہیں کرتے ۔ہم پنجابی لوگ عربوں کی طرح الفاظ ادا نہیں کر سکتے ۔واقعہ بیان کیا کہ عرب نے مسیح موعود ؑ سے ملنے آیا تو ض کا استعمال کیا تو کہا کہ آپ کس طرح مسیح موعود ؑ ہو سکتے ہیں کہ ض بھی ادا کرنا نہیں آتی ۔اس نے لغو حرکت کی تھی ۔عرب خود کہتے ہیں کہ غیر عرب ض کو ادا نہیں کر سکتے ۔ حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا :عرب احمدیوں کو بھی اس بات کو سامنے رکھنا چاہیے ۔ بعض کی تربیت میں فخر کی عادت ہوتی ہے ۔ایک پاکستانی عورت سمجھتی ہے کہ میں نے صحیح تلفظ ادا کر دیا ہے اگر اس کی ذات تک یہ بات ہوتی تو میں نہ کہتا وہ بعض مجالس میں بیٹھ کر کہتی ہے کہ پاکستانیوں کو قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا ۔اور عرب بیٹھ کر مذاق اڑاتے ہیں ۔میں نہیں سمجھتا ہر ایک ایسا ہو ۔اسلام نے ہر قوم کے دل جیت کر اللہ تعالیٰ کے کلام سے آشنا کروانا ہے ۔ہر ایک کا الگ الگ لہجہ ہے ہر ایک بہترین رنگ میں پڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور کرنی بھی چاہیے اور ترتیل کا خیال رکھا جائے ۔کسی کی مدد کی جا سکتی ہے تو کریں مگر کسی کا مذا ق اڑانے کی اجازت نہیں ہے ۔ہر ایک کا اپنا اپنا لہجہ ہے ۔اب میں حضرت مصلح موعود ؓ کے حوالہ سے بعض واقعات بیان کرتا ہوں ۔آپؓ فرماتے ہیں کہ مثل مشہور ہے بزدل انسان تھا اس کو وہم ہو گیا کہ بہت بہادر ہے ۔پرانے زمانہ میں اپنے نشان بنانے کا بہت رواج تھا ۔اس نے شیر گدوایا ۔جب اس نے سوئی چھوئی تو درد ہوئی تو اس نے پوچھا کیا کرنے لگے ۔شیر کا کونسا حصہ بنانے لگے ہو ۔اس نے کہا دم کٹ جائے تو شیر نہیں رہتا ۔اچھا پھر دم چھوڑ دے اسی طرح ہر حصہ جب بنانے لگتا تو وہ آدمی کہتا اگر یہ نہ ہو تو شیر نہیں رہتا ۔ان گدنے والا بیٹھ گیا اس نے کہا کام کویں نہیں کرتے اب کچھ رہ نہیں گیا میں کیا کروں ۔فرمایا کہ اب اسلام کے ساتھ یہی حساب ہے کہ نعرے بہت لگاتے ہیں مگر عمل کچھ نہیں ہے ۔جس طرح دوسروں کو بات کی تلقین کی جاتی ہے ۔اس کا کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا ۔یہ بھی چھوڑ دو یہ بھی چھوڑ دو ۔پھر ایک اور مثال دیتے ہیں کہ نانا جان فرمایا کرتے تھے میری طبیعت بہت چلبلی تھی ۔جب آم کے موسم میں صبح چوستے لگتے تو میں میٹھا آم کہا کر چھپا دیا کرتا تھا ۔اور باقی سب کے ساتھ کھا جاتا ۔جب کھا لیتے تو میں کہتا کہ میرا پیٹ نہیں بھرا ۔ایک دن میرے بڑے بھائی نے بھی کہا میرا بھی پیٹ نہیں بھرا ۔جب انہوں نے آم چوسے تو کہا یہ تو بہت میٹھے تھے ۔فرمایا یہی حال آج کل کے مسلمانوں کا ہے ۔یہ تو بچپنا تھا ۔مگر یہاں جان بوجھ کر غلط بات کی جاتی ہے ۔پس آج کل بھی علماء اپنے لئے جو جواز پیدا کرتے ہیں اور لوٹ مار کرتے ہیں ۔ان علماء کی وجہ سے مختلف تنظیمیں بنی ہوئی ہیں جنہوں نے ظلم و تعدی کے بازار گرم کئے ہیں ۔پھر کس طرح اپنی حالت کو درست کرنا ہے اور ایمان میں اضافہ کرنا ہے اور تعلق پیدا کرنا ہے اپنے رب سے فرمایا : اگر آپ لوگ تقوی اور طہارت اپنے اندر پیدا کریں دعاؤں اور تہجد کا التزام رکھے تو اللہ تعالیٰ آپ کو بھی رویا صادقہ سے کچھ حصہ دے گا اور اپنے کلام سے ہم کلام کروائے گا ۔زندہ معجزہ وہی ہے ۔بیشک معجزات بہت بڑے ہیں ۔مگر ہر ایک کی ذات کے ساتھ جس کا وہ اپنی ذات میں مشاہدہ کرے وہی اس کے لئے بہت بڑا ہے ۔ حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : آپ ایمان کی مثال دے کر صاحبزادہ شہزادہ عبد اللطیف کی مثال دیتے ہیں ۔جب ان کو بلایا کہ توبہ کر لو انہوں نے کہا جب میں چلا تھا کہ رویا دیکھی تو ہتھ کھڑیا ں پڑی ہیں ۔اس لئے میں اپنے رب کی بات کو پورا کرونگا۔ان کو یہ یقین اس طرح حاصل ہوا کہ انہوں نے خواب دیکھاتھا ۔انسان کوئی خواب بزدلی کی وجہ سے چھپا لے تو اور بات ہے ۔اگر ایمان مضبوط ہو اور خدا تعالیٰ سے تعلق ہو تو پھر دنیا دار سے نہیں ڈرتا ۔فرمایا حضرت صوفی احمد جان بہت بڑے بزرگ تھے ایک راجہ نے ان کو دعوت دی آپ نے منع کر دیا اگر دعا کروانا چاہتے ہیںٰ میرے پاس آئیں میں کیوں جاؤ ۔پس تعلق باللہ ہوتو انسان نہیں ڈرتا ۔حضور علیہ السلام سے پہلے لو گوں کی آپ کی بہت عقیدت تھی اور دعوی کے بعد کیا حالت ہو گئی فرمایا دیکھو براہین احمدیہ کی وجہ سے لاکھوں احمدی بہت عقیدت رکھتے تھے ۔دعوی سے قبل وفات پا گئے ۔ سب مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر ۔تم مسیحا بنو خدا کے لئے ۔انہوں نے دیکھ لیا تھا جن کی نگاہ دور بین نہ تھی وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ اسلام کی فتح آپ ؑ سے وابستہ ہے ۔جب یہ ہتھیار دیا گیا تو بڑے بڑے مخلص آپ ؑ سے متنفر ہو گئے اور کہنے لگے جس کو ہم سونا سمجھتے تھے وہ تو پیتل تھا ۔بیعت کے وقت چالیس لوگوں نے بیعت کی ۔پرانے لوگ سناتے ہیں کس طرح بڑے بڑے علماء کہتے تھے اسلام کی خدمت اسی شخص سے ہو سکتی ہے ۔مولوی ثنا ءاللہ نے لکھا میں پیدل قادیان گیا ۔مولوی محمد حسین بٹالوی جو شدید مخالف تھا لکھا 1300 سال کے عرصہ میں کسی نے ایسی خدمت نہیں کی جیسی اس شخص نے کی ۔آج کل بھی نام نہاد علماء باتیں کرتے ہیں کہ خدمت کی بعد میں بگڑ گئے ۔یہ لوگ دل کے اندھے ہیں ۔جس کو سونا بنایا ہے اس کو پیتل سمجھتے ہیٰں ۔خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت کو دیکھنے کی بجائے نفس کے اندھیرے میں ڈوب گئے ہیں ۔دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں ۔ایک دفعہ لدھیانہ کا ذکر ہوا 1931 کی شوری میں تو نمائندگان کو کہا میرے نزدیک بہت اہم معاملہ ہے ۔دارالبیعت کا ۔لدھیانہ کا مقام نجات لوط کا کہا ہے ۔لدھیانہ میں بیعت لی ۔ حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : صوفی احمد جان صاحب نے اپنے خاندان کو کہا تھا تم بیعت کر لینا ۔فرمایا اس مقام کا نقشہ بنایا جائے اور اس پر نشان لگا دیا جائے ۔فرمایا اس جگہ پر جلسہ کیا جائے ۔اور ان سب کے الفاظ لکھ دئے جائیں ۔یہ مکان جماعت احمدیہ کے پاس ہے ۔اس کو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔حضرت محمد ﷺ نے خواب دیکھا کہ جنت کا خوشہ لایا گیا اور فرمایا گیا کہ یہ ابو جہل کے لئے ہے ۔اس کی تعبیر تھی کہ ابو جہل کے لڑکے کو جنت ملے گی ۔پھر اس نے عکرمہ نے ایک جنگ کے موقع پر سخت نقصان ہوا اور صحابہ شہید ہو رہے تھے عکرمہ نے کہا مجھ سے تو نہیں دیکھا جائے گا۔اور اپنی فوج کو کہا مجھے اجازت دیں میں حملہ کروں ۔اور ساٹھ بہادروں کو ساتھ لیکر قلب پر حملہ کیا اور شدید حملہ کیا کہ کمانڈر کو جان بچانے کے لئے بھاگنا پڑا ۔یہ جانباز ایسے بہادری سے لڑ ے کے تمام کے تمام شہید تھے یا زخمی تھے ۔ایک پانی لے کر آیا عکرمہ کو دینا چاہا تو آپ نے دیکھا حضرت سہیل ؓ پانی کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔پھر کہا سہیل کو پانی پلاؤ اور پھر میں پیو ں گا جب سہیل ؓ کے پاس گیا پھر حارب ؓ پڑے تھے ان کو پلاؤ وہ حارث فوت ہو چکے تھے سہیل بھی وفات پا چکے تھے پھر عکرمہ کی روح بھی پرواز کر چکے تھے ۔یہ عکرمہ ابو جہل کے لڑکے تھے ۔اللہ تعالیٰ کا کلام شہادتوں کو واضح کر دیتا ہے ۔پیشگوئیاں جو ہیں وہ کس طرح پوری ہوتی ہیں ۔ حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : فرمایا آپ ؑ کی پیشگوئیوں میں بہت سی شہادتیں موجود تھیں ۔ہم آپ کو جانتے ہی نہ تھے ۔غلام مرتضی صاحب کا ایک ہی لڑکا ہے ۔ایسا شخص جس کو اس کے گاؤں کے لوگ بھی نہ جانتے ہوں ۔اس کو کہتا اولاد دے گا ایک لڑکا ایسا ہوگا جو دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا ۔پھر وہ لڑکا تین کو چار کرنے والا ہوگا ۔یہ معنی بھی تھے یہ پیشگوئی کے چوتھے سال میں پیدا ہوگا پیشگوئی 1886 مین تھی مصلح موعود ؓ کی پیدائش 1889 میں ہوئی ۔پہلی بیعت بھی 1889 میں ہوئی ۔اس پیشگوئی کا بہت چرچہ ہے ۔میرا نام بشری الدین محمود احمد پیشگوئی کے موافق رکھا ۔مگر دنیا انتظار کر رہی تھی کہ یہ پیشگوئی کس لڑکے کے بارہ میں ہے میں یہ بتانے کے لئے آیا ہوں لدھیانہ کا جماعت کے ساتھ کئی رنگ میں تعلق ہے ۔پہلی بیعت اس شہر میں ہوئی ۔پہلے خلیفہ کی شادی لدھیانہ میں ہوئی ۔اس پیشگوئی میں جس لڑکے کا تعلق ہے وہ اس بیوی سے پیدا ہوا جو لدھیانہ میں رہی ہیں ۔میں بھی اس جگہ رہا ہوں ۔فرمایا کہ مکان اور سڑک کے باہر آیا تو مری ہوئی چھکپلی میرے پر پھینکی میں روتا ہوا گھر گیا ۔میں نے اس مکان میں کئی ماہ گزارے ہیں ۔پس اس شہر کا کئی رنگ میں احمدیت کے ساتھ تعلق ہے ۔میں سوچ رہا تھا خدا تعالیٰ کی طرف سے جن باتوں کا اعلان کیا جاتا ہے ان کی مخالفت ضرور کرتے ہیں ۔لاہور میں جلسہ ہوگیاگرداسپور میں جلسہ ہوگیا تھا مگر مخالف نہ تھی ۔جب لدھیانہ آیا تو شہر سے گزر رہا تھا تو لوگوں کا جلوس گزر رہا تھا نعوذباللہ (مرزا مر گیا ) بہر حال ہم کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔پیشگوئی پوری چمک کے ساتھ پوری ہوئی ۔اللہ کرے کہ لدھیانہ کے لوگوں کو توفیق ملے ۔جو آج مخالفت میں نعرے لگا رہے ہیں کل کو حق میں لگانے والے ہوں ۔پھر ایک صحابی کے عشق کا تعلق کرتے ہوئے فرماتے ہیں میاں عبد اللہ سنوری صاحب بہت عشق رکھتے تھے حضور ؑ سے ۔قادیان آئے ان سے کوئی کام لے رہے تھے چھٹی ختم ہو گئی تو فرمایا ٹھہر جاؤ مزید رخصت کے لئے درخواست دی ۔چھٹی نہ ملی ۔اس کا ذکر کیا اور فرمایا ٹھہرو۔محکمہ نے ڈسمس کر دیا ۔چھ ماہ تک رہے پھر جب واپس آگئے تو محکمہ نے سوال اٹھا دیا جس آفسر نے ان کو ڈسمس کیا تھا اس کا حق ہی نہ تھا ۔پھر وہ اپنی جگہ پر بحال کئے گئے اور سب ماہ کی تنخواہ مل گئی ۔ایک اور واقعہ سنایا ۔منشی صاحب کہتے ہیں ایک دفعہ میں کام کو بندکر کے قادیان چلا ایا تیسرے دن جانے لگا تو فرمایا کہ ٹھہریں ۔مثلیں میرے گھر تھیں ۔مجھے خطوط آنے لگے میں سب کچھ بھول گیا ۔ایسی محبت تھی محفل میں ۔ایک نہایت سخت وہاں سے آیا اس پر مسیح موعود ؑ نے فرمایا ہمارا آنا نہیں ہوتا وہی لکھ دیا ۔پھر ایک دن ماہ کے بعد کہا چلے جائیں ۔کپور تھلے پہنچ کر ان کے مکان پر گیا کہ فیصلہ کیا ہوتا ہے ۔ان کے گھر گیا انہوں نے کہا آپ کو مرزا صاحب نے نہیں آنے دیا ۔مجسٹریٹ صاحب نے کہا ان کا حکم مقدم ہے ۔(سبحان اللہ ) حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : فرمایا یہ ایک گروہ تھا جن کا عشق ایسا اعلی درجہ کا تھا ۔ہماری جماعت کے دوستوں میں کتنی ہی کمزریاں ہوں لیکن اگر موسی ؑ کے صحابی ہمارے سامنے اپنی باتیں پیش کر سکیں تو ہم بھی قیامت کے دن ان صحابہ کو پیش کر سکتے ہیں ۔ان لوگوں کی وجہ سے ہی فرمایا ۔یہ لوگ تھے ابو بکر ؓ عمر ؓ عثمان ؓ علی ؓ کی طرح ہر قسم کے مسائل اور قربانی کے لئے تیار رہتے تھے ۔حضرت خلیفہ اول ؓ کو ہی دیکھ لو ۔میں نے ان کا نام نہیں لیا ۔قادیان میں انا ۔بھیرہ میں آپ کا کام ہو رہا تھا ۔مگر مسیح موعود ؑ نے جب آپ کو روکا تو دوبارہ اس کا سوچا بھی نہ ۔خود اپنا سامان لینے بھی نہ گئے ۔یہی وہ قربانیاں ہیں جو جماعتوں کو خدا تعالیٰ کے حضور ممتاز کرتی ہیں ۔خالی ایمان کسی کے کام نہیں آ سکتا انسان کے کام انے والا ایمان عشق کی چاشنی والا ہی ہوگا۔وہ جو عقل سے نہیں دل سے پہنچان لیتے ہیں وہ دھوکہ نہیں کھا سکتا ۔دل کی طرف سے عشق کا حال اٹھتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم کو دل کی آنکھ سے زمانہ کے امام کو پہنچانے والے ہون ہمیشہ شعائر اللہ کو پہنچانے والے ہون اور شیطان ہمیں دھوکہ نہ دے سکے ۔آمین نماز کے بعد ایک درویش مرحوم کا جنازہ پڑھایا ۔اللہ تعالیٰ ان کی روح کو جنت میں اعلی مقام دے اور ان کی اولادوں کو بھی جماعت سے وابستہ رکھے ۔آمین

No comments:

Post a Comment