
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ 11 دسمبر 2015 بیت الفتوح یوکے(مرتب کردہ یاسر احمد ناصر مربی سلسلہ ) تشہد و سورة الحمدللہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : گزشتہ دنوں ایک کالم نے لکھا اور ایک آسٹریلین سیاست دان نے کہا کہ اسلام کی تعلیم کے جہاد کے بارہ میں احکامات ہیں انہی کی وجہ سے مسلمان شدت پسند بنتے ہیں ۔اسلامی احکامات کے بارہ میں یو کے کہ سیاست دان نے بھی یہی کہا تھا ۔اسلام میں کچھ نہ کچھ شدت پسندی کے احکامات ہیں ۔جس کی وجہ سے مسلمانوں کا شدت پسندی کی طرف رحجان ہے ۔آج کل جو اسلام کے نام پر عراق اور شام میں شدت پسند گروہ نے کچھ علاقہ پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کی ہے اس میں مغربی ممالک کو بھی دھمکیاں دیں ہیں بعض جگہ ظالمانہ حملے کر کے معصوموں کو تنگ کیا ہے ۔اس سے جہاں عوام خوفزدہ ہوئی ہے وہاں جو بعض لیڈروں نے لا علمی کی وجہ سے یا اسلام مخالف خیالات کی وجہ سے اسلام کے خلاف کہنے کا موقع مل گیا۔کہنے اور لکھنے والے کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے دوسرے مذاہب میں بھی شدت پسندی ہے لیکن اس کے ماننے والے اب اس پر عمل نہیں کرتے یا زمانہ کی ضرورت کے مطابق تعلیم میں تبدیلی کر لی ہے اور اس بات پر زور ہے کہ قرآن کریم کے احکامات کو بھی اس زمانہ کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے ۔اس سے یہ بات تو ثابت ہوئی گئی کہ ان کی تعلیم اب خدا کی تعلیم نہیں رہی اور یہ ہونا تھا ۔یہ تعلیم قائم رہنے یا تا قیامت عمل کرنے والے کا وعدہ نہیں تھا ۔جب قرآن کریم میں اعلان تھا کہ ہم نے ہی اس ذکر کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ایک جگہ فرمایا : اللہ تعالیٰ کی قدیم سے عادت ہے جب کسی چیز سے منع کیا جائے تو اس کی تقدیر میں سے ہوتا ہے کہ بعض اس کے مرتکب ہونگے ۔جیسا کہ تورات میں یہودیوں کو منع کیا سو ان میں سے بعض نے تحریف کی ۔اس قرآن کے بارہ میں کہا گیا کہ ہم ہی اس کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے یہ صاف بتا رہی ہے کہ جب ایک قوم پیدا ہو کر اس کو مٹانے والی ہوگی تو پھر ایک فرستادہ کے ذریعہ حفاظت کی جائے گی ۔لوگ وقتا فوقتا اس پر حملے کر کے اس کو مٹانا چاہتے ہیں ۔گزشتہ دنوں ایک چھوٹی سی فلم چل رہی تھی دو لڑکے قران کی بعض آیات پڑھ کر سنا رہے تھے اور مختلف لوگوں سے اس کے بارہ میں پوچھ رہے تھے تو ہر ایک کو جب یہ پتہ چلتا تھا کہ قرآن کریم کی تعلیم سے ثابت ہو گیا کہ اسلامی تعلیم ہی ایسی ہے جس سے یہ حرکتیں ہوتی تھیں ۔کچھ دیر کے بعد وہ کتاب سے ٹائٹل اٹھا دیا وہ بائبل کی تعلیم تھی کسی نے کوئی بات نہیں تھی ۔جب اسلام کے ساتھ نام آتا ہے تو حملے کرتے ہیں۔اگر ایک مسلمان غلط حرکت کرتا ہے تو وہ اسلام سے جوڑی جاتی ہے اور اگر کوئی دوسرے مذہب والا کرے گا تو وہ معذور پاگل کہلائے گا۔ فرمایا : ہم مانتے ہیں کہ بعض مسلمان گروہوں کے غلط عمل نے اسلام کو بدنام کیا ہے لیکن اس پر قرآن کریم کی تعلیم کو نشانہ بنانا بھی اس کا اظہار ہے امریکہ صدارتی امیدوار اس کے خلاف بول رہا ہے ۔لیکن اسلام کی خوبصورت تعلیم کا مقابلہ کوئی مذہب اور نہ کوئی قانون کر سکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی حفاظت کی وعدہ کے مطابق ایک فرستادہ کو بھیجا اور اس کے مطابق اس نے اس کی حفاظت کی اور اسی نے فرمایا : قرآن کریم جس کا ابتدائی نام ذکر ہے اس نے اس زمانہ کی صداقتوں اور ودیتوں کو یاد کروانے آیا تھا ۔کہ اس زمانہ میں بھی ایک معلم آیا اور جو آخرین منھم لما ہلحقو بھم کا مصداق اور موعود ہے اور وہی تمہارے درمیان بول رہا ہے ۔پھر فرمایا ؛ جو یہ وعدہ ہے کہ حفاظت کا وعدہ کیا ہے ۔مسلمانوں کو اس مصیبت سے بچا لیا اور فتنہ میں پڑنے نہ دیا ۔مبارک ہیں وہ لوگ جو اس جماعت میں شامل ہو کر اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی عظمت کو قائم کرنے کے لئےچودھودیں صدی کے سر پر مجھے بھیجا ۔قرآن کریم کو جو عظمتیں ہیں وہ کسی مذہب کو نصیب نہیں ہیں ۔اس میں مسلمانوں کو بھی دعوت ہے کہ جو حملے ہو رہے ہیں اس کا توڑ کرنے کے لئے اس شخص کے ساتھ رشتہ جوڑ کر مخالفوں کے منہ بند کریں ۔جو گروہ یا لوگ تلوار کے زور سے اسلام کے پھیلانے کا دعوی کرتے ہیں۔حقیقت میں وہ اسلام کے دشمن اور اسلام مخالف طاقتوں کے آلہ کار ہیں ۔حضرت مسیح موعود ؑ نے واضح طور پر فرما دیا یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں ہے ۔اسلام امن اور پیار کی تعلیم سے بھرا ہوا ہے ۔آج اس زمانہ میں اس تعلیم کا پرچار کرنے کی ضرورت ہے اور اس کو سمجھ کر اس پر ہر احمدی کو عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔آج ہم نے یعنی احمدیوں نے ہی مسلمانوں اور مخالفوں کو حقیقت سے آشکار کرنا ہے ۔جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں وہ جاہل ہیں اسلام کی تعلیم تو امن اور سلامتی کی تعلیم ہے ۔قرآن کریم کی روشنی میں ہی یہ تعلیم ان لوگوں کو دکھانی ہے ۔ فرمایا : اس وقت دنیا کو اسلام کی حقیقی تصویر دکھانا بہت ضروری ہے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی ہر جگہ اس طرف توجہ ہے ۔حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ میڈیا سے تعلق اور رابطہ بھی رکھا جائے اور اس کے ذریعہ سے عوام کو بتایا جائے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ اور باقی ملکوں جرمنی میں بھی میڈیا سے رابطے ہیں ۔ان کو وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے ۔گزشتہ دنوں برٹش پارلیمنٹ میں ایک ممبر نے جماعت احمدیہ کے حوالے سے بتایا کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والے احمدی مسلمان ہیں اس پر ان کی بڑی تعریف کی گئی اور وزیر داخلہ نے کہا یہ اسلام جو احمدی پیش کرتے ہیں وہ مختلف ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ کوئی نئی تعلیم نہیں ہے بلکہ اسلام کی حقیقی تعلیم پیش کرتے ہیں اس تعلیم کو ہمیشہ تازہ رکھنے کی ضرورت ہے ۔شدت پسندی کے حوالے سے اخبار میں شرخیا ں دی جاتی ہیں ۔گزشتہ دنوں جب جاپان میں تھا تو وہاں بھی پڑھے لکھے طبقہ کا اظہار تھا بلکہ ایک عیسائی پادری نے کہا اسلام کی تعلیم جو تم بتا رہے ہو اس کو جاپانیوں کو جاننے کی بہت ضرورت ہے ۔لیکن اس کا فائدہ تبھی ہوگا جب آپ اس بات کو اس فینگشن تک محدود نہ کریں بلکہ جاپان میں مسلسل کوشش سے یہ تعلیم دنیا کو بتائیں ۔اب انصاف پسند غیر بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ دنیا کے سامنے لگا تار اسلام کی تعلیم پھیلاتے رہو ۔یہ جاپان جماعت کا بھی کام ہے کہ جامع منصوبہ بندی کر کے اس کام کو تازہ رکھیں ۔اسی طرح ہر جگہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کا ادراک جو ہوا ہے اس کو پھیلائیں ۔ فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کریم کے معنوں کی صحیح تشریح کے لئے آپ ؑ کو بھیجا گیا ۔آپ نے اپنی کتب اور ملفوظات میں اس کا بہت وضاحت سے خوب حق ادا کیا ہے ۔ بعض مثالیں پیش کرتا ہوں جو اسلام کی امن کی تعلیم کو واضح کرتی ہیں قرآن کریم میں’’ دین میں کوئی جبر نہیں ‘‘ پھر فرمایا ’’ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو جس قدر لوگ زمین پر تھے سب کے سب ایمان لے آتے جب خدا بھی مجبور نہیں کرتا تو تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ لوگ ایمان لے آئیں ۔آپ ؑ نے فرمایا اسلام نے کبھی جبر کا مسئلہ نہیں سکھایا ۔آنحضرت ﷺ کی خواہش کے باوجود کہا کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔اگر قرآن شریف اور حدیث کی کتابوں کو غور سے دیکھا جائے تو اس قدر وسعت معلومات کے بعد یقین کے ساتھ معلوم ہوگا کہ اسلام تلوار کے ساتھ پھیلا ہے یہ قابل شرم بیان ہے ۔یہ ان لوگوں کا خیال ہے جو تعصب سے الگ ہو کر نہیں دیکھ پاتے ۔مگر میں جانتا ہوں کہ زمانہ قریب ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیاسے ان بہتانوں پر مطلع ہو جائیں گے ۔کیا وہ جبر کا مذہب کہلا سکتا ہے جس میں لکھا کہ دین میں جبر نہیں ۔کیا اس نبی کو جابر کہا جا سکتا ہے جس نے 13 سال ہر ایک کو جبر کو برداشت کرنے کی تعلیم دی ۔جب حد سے بات بڑی تو پھر تلوار کے مقابلہ میں تلوار اٹھائی گئی ۔اگر جبر کی تعلیم ہوتی تو جبر کی تعلیم کی وجہ سے امتحان کے موقع پر سچے ایماندار کی وجہ سے صدق کا نمونہ نہ دکھا پاتے ۔جبر کی وجہ سے دل سے وفا نہیں دکھا سکتے ۔لیکن ہمارے صحابہ ؓ کی وفادار ایک ایسا امر ہے کہ وہ ظاہر باہر ہیں ۔اسلام میں تین قسم کی لڑائیاں ہیں ۔جب سختی کی اجازت ہے۔ ایک دفاعی طور پر اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھایا جا سکتا ۔دوم خون کے عوض خون ۔جب سزا دینا مقصود ہو۔تین : بطور آزادی قائم کرنے کے ۔جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے ۔ان تین مواقع کے سوا کہیں حکم نہیں ہے کہ دین پھیلانے کے لئے تلوار اٹھاؤ ۔ قرآن کریم نے کہا ہے کہ نیک نمونے سے اپنی طرف کھینچو ۔وہ ابتدائی تلوار دشمن کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے کھینچی گئی تھی ۔ فرمایا : قرآن کریم کا جبر سے دین میں داخل نہ کرنے کا اعلان یہ بتاتا ہے کہ جبر سے دین کا کوئی معاملہ نہیں ہے ۔دین کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرو ۔یہ ہر ایک احمدی کی بہت بڑھی ذمہ داری ہے کہ دین کی ذاتی خوبی کو پیش کرنے کے لئے قرآن کریم کا علم حاصل کر کے دنیا کو اپنے نمونے سے اپنی طرف لائے ۔قرآن کریم میں ایک جگہ اسلام قبول نہ کرنے والوں کا نقشہ یہ ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم تیری پیروی کریں تو ہم کو باہر نکال دیا جائے ۔پس اسلام کی تعلیم پر اعتراض یہ نہیں ہے کہ بلکہ جو قبول کرتا ہے اس کو نکالا جا رہا ہے ۔اور نہ قبول کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اس تعلیم پر عمل کریں تو ارد گرد کے لوگ ہم کوتباہ کر دیں ۔اسلام کی تعلیم تو دوستی کا ہاتھ بڑھانے والی تعلیم ہے ۔امن و محبت کا پیغام دینے والی ہے ۔جو مسلمان اس پر عمل نہیں کرتے وہ ان کی بد قسمتی ہے ۔اب تو میڈیا پر خود ان کے لوگ کہنے لگ گئے ہیں کہ شدت پسند تنظیمیں ہماری اپنی پیدا کی گئی ہیں ۔اس واسطے میں مسلمانوں اور جو اسلام کے نام پر مسلمان کہلاتے ہوئے شدت پسندی کرتے ہیں وہ بری الذمہ نہیں ۔اس آگ کو بھڑکانے میں بڑی طاقتوں کا بہت بڑا حصہ ہے ۔ہر تجزیہ نگار کا میڈیا کے ذریعہ ہر جگہ اپنے خیالات پہنچانا اب بہت آسان ہوگیا ہے ۔ایک طرف شدت پسندوں کو ختم کرنے کی باتیں ہوتی ہیں اور دوسری طرف اسلحہ پہنچانے والوں کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ۔پس دنیا کے امن کو برباد کرنے والے صرف مسلمان گروہ نہیں ہیں بلکہ بڑی حکومتیں بھی ہین جو اپنے مفادات کو اہمیت دیتی ہیں ۔ایک حقیقی مسلمان تو جانتا ہے کہ خدا سلام ہے ۔ایک جگہ قرآن کریم میں آتا ہے ۔اے اللہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو ان سے در گزر کر اور وہ جلد جان جائیں گے ۔حقیقت کیا ہے ۔یہ ہے اسلام کی تعلیم ۔اسلام مخالفین کی تمام زیادتیوں کو برداشت کر اور کہہ میں سلامتی کا پیغام دیتا ہوں اور دیتا رہونگا ۔پس جب یہ حکم محمد ﷺ کے لئے ہے تو عام مسلمان کے لئے کس قدر بڑھ کر ہوگا ۔ہمارا کام اسلام اور امن کا پیغام پہنچانا ہے ۔قرآن نے کبھی بھی اور کہیں بھی یہ حکم نہیں دیا کہ جو بات نہ مانے تو اس کو تہہ تیغ کر دو ۔اگر کوئی اس کی نفی کر رہا ہے تو دنیا میں امن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو وہ حقیقی اسلام نہیں ہے ۔وہ ان کے اپنے مفادات ہیں یا بڑی طاقتوں کے مفادات ہیں ۔جنہوں نے مسلمانوں کو آلہ کار بنایا ہوا ہے ۔ فرمایا : ہم میں سے ہر ایک کو اور خاص طور پر نوجوانوں کو احساس کمتری میں شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔اسلام امن کی تعلیم دیتا ہے اس تعلیم کا ادراک اور اپنے اوپر لاگو کرنے کی ضرورت ہے ۔اس تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کریں اور اپنے عملی نمونوں سے دنیا کو بتائیں کہ آج قرآن کریم کی صحیح تفسیر اور تشریح ہی اس کی معنوی حفاظت بھی ہے ۔جس کی حفاظت کے لئے حضرت مسیح موعود ؑ کو بھیجا ہے ۔یہ ہر احمدی مرد و عورت اور لڑکے لڑکی کو کوشش کرنی چاہیے ۔اس وقت جس دھہانے پر کھڑی ہے کسی وقت بھی اس میں گر سکتی ہے ایسے وقت میں دنیا کو اس سے بچانے کے لئے کوشش کرنا احمدی کی ذمہ داری ہے اور احمدی ہی کر سکتا ہے ۔اس کے لئے کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے بڑی چیز خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنا ہے اور اس کا تقوی اپنے دلوں میں پیدا کرنا ہے اسی وجہ سے ہم دنیا کو امن و سلامتی دے سکتے ہیں ۔ آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار ۔ اس خدا سے تعلق کو مضبوط تر کرنے کی ضرورت ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور دنیاداروں کو بھی عقل دے کہ وہ اس فرستادہ کی بات سن کر تباہی سے بچنے کی کوشش کریں ۔ نماز کے بعد تین جنازے دو غائب اور ایک حاضر ۔ایک عنائت اللہ صاحب کا 9 دسمبر کو وفات ہوئی ۔مبلغ سلسلہ تھے ۔والد اللہ بخش صاحب تھے ۔عنائت اللہ احمدی صاحب کی پیدائش جنوری 1920 کی ہے ۔قادیان مین میٹرک کیا 1944 کو وقف کیا اور 1946 سے 1979 تک مبلغ کے طور پر کام کیا ۔1946 سے 173 تک بیرون مبلغ کام کیا۔ایک بیٹے حبیب اللہ احمدی صاحب بھی وقف کی توفیق پا کر وقف میں ہیں۔شیخ مبارک احمد صاحب کے مدد گاروں میں سے تھے۔اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور نسلوں کو بھی خلافت سے وفا کا تعلق رکھے ۔ دوسرا مولوی بشیر احمد صاحب کالا افغانا صاحب درویش قادیان کا ہے ۔1946 میں قادیان آیا تو اس وقت احمدیت کی معلومات نہ تھیں ۔نماز کے لئے کوئی مسجد بتاؤ جو قادیانی کی مسجد نہ ہو ۔خوبصورت مسجد ہے اب میں قادیانیوں کی مسجد میں نہیں جاؤنگا۔ایک دن احراریوں کی مسجد میں بھی گیا تو پھر عہد کیا کہ مسجد اقصی میں ہی نماز ادا کرونگا ۔پھر جماعت سے تعارف ہوا اور احمدیت قبول کر لی ۔1947 میں ملک کی تقسیم کے بعد ارشاد پر حفاظت مرکز کے لئے اپنا نام پیش کر دیا ۔اور درویش میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ۔1952 میں شادی ہوئی دو بیٹے پیدا ہوئے ۔دہاتی مبلغ کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی ۔مختلف دفاتر میں بھی کام کیا مینیجر اخبار البدر بھی رہے بڑے وسیع تعلقات تھے ان کے بھی ۔بڑا عزت اور احترام تھا ۔ہمیشہ مسجد میں نماز ادا کرتے تھے وفات والے دن بھی نماز ظہر مسجد میں ادا کی۔اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے او ر ان کی اولاد کو بھی اس کا وارث بنائے ۔ تیسرا مکرمہ قانتہ بیگم صاحبہ ہیں جو اڑیسہ کی ہیں 16 اکتوبر 2015 کو وفات ہوئی بہت صابرہ شاکرہ تھیں ۔ان کے خاوند سرکاری ملازم تھے پھر بھی غریب عزیزوں کی خدمت کیا کرتے تھے ۔اللہ تعالیٰ مرحومہ کی درجات بلند فرمائے آمین
No comments:
Post a Comment