
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ 04 دسمبر 2015 بیت الفتوح یوکے(مرتب کردہ یاسر احمد ناصر مربی سلسلہ ) تشہد و سورة الحمدللہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق آنحضرت ﷺ کے عاشق و صادق کو بھیج کر اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز فرمایا ْ۔ وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے جنہوں نے 1400 سال بعد وحی و الہام کا زمانہ پایا اور حضرت مسیح موعود ؑ سے فیض پایا ۔جب تصور کی آنکھ سے دیکھیں کہ کس طرح صحابہ حضور ؑ کے گرد ہو کر اس کی حمد اور شکر کرتے ہونگے تو دل کی کیفیت عجیب ہوتی ہے ۔خدا نے وعدہ فرمایا تھا کہ میں آخری میں ایسے لوگ پیدا کرونگا جو پہلوں سے ملنے والے ہونگے ۔وہ اس تلاش میں رہتے تھے کہ آج کا تازہ الہام کیا ہوا ۔اس کا ذکر حضرت مصلح موعود ؓ نے یوں فرمایا کہ اس طرح عاشقوں کی طرح دن چڑھتے ادھر ادھر دوڑتے تھے ۔ادھر میں نکلا مجھ سے پوچھنے لگے یا کوئی اور بچہ نکلا تو اس سے پوچھنے لگے ۔اور ہماری یہ حالت تھی آپ ؓ فرماتے ہیںٰ کہ ادھر حضرت مسیح موعود ؑ نماز کے لئے تشریف لے گئے تو ہم نے کاپی اٹھا کر دیکھا کہ کیاتازہ الہام ہوا ہے ۔یا پھر مسجد میں جا کر آپ کے منہ سے سنا ۔پس یہ ذوق و شوق تھا اس لئے کہ اپنے ایمانوں کو مضبوط کریں۔ اللہ کا شکر اور حمد کریں کہ اس نے ہم کو ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی ۔پھر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ کسی صحابی کی موجودگی میں الہام ہوتا اور وہ خوش قسمت بھی اللہ تعالیٰ کی وحی کو سن رہا ہوتا ۔بعض دفعہ ایسی بھی کیفیت ہوتی ۔ایسے ہی ایک بزرگ کا ذکر کرتے ہوئے جن کی موجودگی میں الہام ہوا ڈاکٹر عنائت اللہ شاہ صاحب کے والد سید فضل شاہ صاحب مکرم صحابی تھے ۔ان میں بھی بڑا اخلاص تھا ۔ان کے بھائی بھی تھے سید ناصر شاہ صاحب یہ اپنے بھائی کو کہتے تھے میں تم کو خرچہ دے دیا کرونگا ۔ایک وحی جو ایسی حالت میں نازل ہوئی جب درد گردہ کی شکایت تھی اور سید فضل شاہ صاحب آپ کو دبا رہے تھے ۔اور اسی طرح وحی نازل ہوئی ۔اور وحی بھی اس طرز کی کہ کلام اونچی آواز میں زبان پر جاری ہو جاتا تھا۔یہ وحی جو مقدمہ دیوار کے بارہ میں تھی اور پھر بعد میں ایسے اسباب بھی پیدا ہو گئے کہ مقدمہ حق میں ہوا ۔اس وحی کے الفاظ آپ ؑ فرماتے ہیں کہ سید فضل شاہ صاحب میرے پیر دبا رہا تھا کہ سلسلہ الہام دیوار کے مقدمہ کی نسبت شروع ہوا اور سید صاحب کو کہا یہ دیوار کے مقدمہ کی نسبت ہے جیسا جیسا یہ ہوتا جائے لکھتے جائیں ایسا ہوتا کہ ایک ایک فقرہ وحی الہی کا زبان پر نازل ہوتا تھا اور جب ایک فقرہ ختم ہو جاتا تو لکھا جاتا تو پھر غنودگی آتی تھی اور پھر دوسرا فقرہ جاری ہوتا یہانتک کہ کل وحی نازل ہو کر سید فضل شاہ صاحب لاہور کی قلم سے لکھی گئی اور تفہیم ہوئی کہ دیوار کے نسبت ہے اور تفہیم ہوئی کہ انجامکار اس میں فتح ہوگی اور میں نے اس کی کثیر جماعت کو سنا دی اور اخبار الحکم میں چھپا دیا ۔سب کو کہہ دیا کہ اگرچہ مقدمہ نو میدی کی ہے مگر پھر بھی اسباب پیدا ہو جائیں گے ۔ وحی کے الفاظ درج ذیل ہیں۔چکی پھرے گی او قضا و قدر نازل ہوگی یعنی مقدمہ کی صورت بدل جائے گی جیسا کہ چکی گردش کرتی آگے والا حصہ سامنے آجاتا تا ہے ۔یہ خدا کا فضل ہے جس کا وعدہ دیا گیا ۔ وہ ضرور آئے گا اور کسی کی مجال نہیں کہ وہ رد کر سکے یہی امر سچ ہے اور یہ پوشیدہ نہ رہےہ گا ایک بات پیدا ہو جائے گی جو تجھ کو تعجب میں ڈالے گی یہ میرے رب کی وحی ہے میرا رب اپنے بندوں کو بھولتا نہیں جو مدد کرنے کے لائق ہیں سو تمہیں اس مقدمہ میں کھلی کھلی فتح ہوگی مگر اس فیصلہ میں اس وقت تک تاخیر ہے ۔جو مقرر کیا ہوا ہے تو میرے ساتھ ہے اور میں تیرے ساتھ ہوں پھر اس مخالف کی تکبر ناز چھوڑ دے وہ وعدہ تیرے ساتھ ہے ۔وحی خدا حقیقی معبود ہے ۔انسان کو نہیں چاہیے کہ کسی دوسرے پر توکل کرے ایک خدا ہی ہے جس کو ہر ایک چیز کا علم ہے جو ہر ایک چیز کو دیکھ رہا ہے اور خدا ان لوگوں کے ساتھ ہوتا جو تقوی اختیار کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں ۔وہ نیکی کے تمام لوازم کو اختیا ر کرتے ہیں اور عمیق در عمیق شاخیں انجام دیتے ہیں ۔ہم نے احمد کو یعنی اس عاجز کو اس کی قوم کی طرف بھیجا پس قوم اس سے رو گردان ہو گئی اور قوم نے کہا کذاب ہے دنیا کا لالچ ہے دنیا نے عدالت میں گواہیاں دیں وہ ایک تند سیلاب کی طرح جو اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے گر رہے ہیں وہ کہتا ہے کہ میرا پیارا بہت قریب ہے ۔قریب تو ہے مگر مخالفوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے ۔ حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں : کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی مجالس کا ذکر کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ ہمارے کانوں میں ابھی تک وہ آوازیں گونج رہی ہیں جو آپ ؑ کی زبانی سنی ۔ فرماتے ہیں کہ ہم نے مجالس میں اس قدر مسائل سنے ہیں کہ جب کتب کو پڑھیں وہ سنا ہوا لگتا ہے آپ ؑ کی عادت تھی جو کچھ لکھتے وہ شام کو بیان کر دیتے تھے ۔ہم ان مطالب کو خوب سمجھتے ہیں جو آپ ؑ کی منشاء اور تعلیم کے مطابق ہیں ۔پھر حقیقی ایمان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔کہ ایک ماں کو اس کے بچے کی خدمت کے لئے دلائل دئے جائیں اور کہا جائے خدمت نہ کرو گی تو یہ ہوگا وہ ہوگا مگر یہ ایک منٹ کے لئے بھی اثر نہیں کریں گے ۔وہ خدمت کرتی ہے تو جذبہ محبت کے ماتحت ۔جو اس کے دل میں کام کر رہا ہوتا ہے ۔کامل ایمان والا کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا جو بات بات پر اعتراض کرتے ہیں وہی ٹھوکر کھاتے ہیں ۔پھر مثال دی کہ منشی اوڑورے خان صاحب ان کا ایک لطیفہ یاد ہے ۔وہ کہا کرتے تھے کہ مجھے بعض لوگوں نے کہا اگر تو مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریر سن لو تب تمہیں پتہ لگے کہ مرزا صاحب سچے ہیں کہ نہیں ۔ایک دفعہ سن لی پھر لوگوں نے پوچھا ۔تو میں نے کہا میں نے تو مرزا صاحب کا منہ دیکھا ہوا ہے ۔اس کے بعد دو سال تک بھی مولوی ثناء اللہ تقریر کرتا رہے مگر میں نہیں مان سکتا ۔کیونکہ وہ منہ چھوٹے کا نہیں ہے ۔کامل مومن کا ایمان مشاہدہ کی بنا پر ہوتا ہے ۔ہمیں خدا تعالیٰ کو اپنی روحانی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔اور تبھی یقین بھی ہوگا جب اس بات پر قائم ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کو اس زمانہ میں دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے ۔وقت کا تقاضہ بتا رہی ہے ۔اس بگھڑے ہوئے زمانہ کے بارہ میں پیشگوئی فرمائی تھی ۔پس اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو تو پھر خوف کردگار بھی ہوتا ہے پھر کثرت اعجاز کی ضرورت نہیں ہوتی ۔معجزہ نہیں مانگا جاتا ۔پس ہمیں اس کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے ۔خدا کرے کہ اوس کا احساس دوسرے مسلمانوں کو بھی ہو جائے او ر وہ بھی اس امام کو مان لیں ۔حضرت منشی اروڑے ؓ کا نام ایسا تھا جو عجیب سے لگتے ہیں َاس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عام رواج ہے کہ جس کے بچہ فوت ہو جاتے تھے وہ میلے کے ڈھیر پر گھسیٹتے تھے ۔کہ بچ جائے اور پھر اس کا نام اروڑا رکھ دیا جاتا تھا ان کا نام اسی طرح رکھا تھا ۔مگر وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں اروڑا نہ تھا ۔مگر ان کو حضرت مسیح موعود ؑ کے قدموں میں ڈال کر نہ صرف جسمانی موت سے بلکہ روحانی موت سے بھی بچانا چاہتا تھا ۔اور اس نے انہیں ایمان نصیب کیا اور حضرت مسیح موعود ؑ کے مخلص صحابی بنے ۔ایسے اخلاص کے بغیر نجات کی امید رکھنا فضول بات ہے ۔ان کا اخلاص ایسا تھا کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ۔ حضرت مصلح موعود ؓ ان کے بارہ میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ منشی صاحب مرحوم مجسٹریٹ کے ساتھ کام کرتے تھے مہینہ میں آجاتے تھے ایک بار ۔اس لئے جس دن قادیان آنے کا موقع ہوتا ان کا آفسر دفتر والوں کو کہہ دیتا کہ آج جلدی کام ہونا چاہیے کہ انہوں نے آج قادیان جانا ہے اگر نہ جا سکے تو ان کے دل سے آہ نکلے گی وہ مجھ کو تباہ کر دے گی ۔یہ آپ کی قبولیت دعا کا نتیجہ تھا ۔یہ ان بزرگوں کا غیروں پر بھی اثر تھا ۔جنہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کے منہ کو دیکھا ہو ا تھا ۔ حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں : دنیا ایسے لوگوں کو گالیاں دیتی ہے دباتی ہے مگر وہ ہر دفعہ دبانے کے بعد گینڈ کی طرح ابھرتا ہے اور ایسے ہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں ایسا ہی ایمان پیدا کرو اور ایسی محبت سلسلہ کے لئے پیدا کرو ۔جو لوگ خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں بعض دفعہ وہ ناز کے انداز میں کہتے ہیں کہ نہیں مانگے گے مگر پھر بھی خدا تعالیٰ ان کی باتیں پوری کرتا ہے ۔ایک بزرگ تھے سخت مصیبت میں تھے کسی نے کہا دعا کیوں نہیں کرتے ۔انہوں نے کہا اگر میرا رب نہیں دینا چاہتا تو کیوں مانگو ۔اور اگر وہ دینا چاہتا ہے تو پھر میرا مانگنا بے صبری ہے ۔یہ مطلب نہیں کہ دعا کرتے ہی نہیں بلکہ کبھی کبھی ایسی کیفیات آتی ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ مانگے گے نہیں۔یہ مقام یونہی حاصل نہیں ہوتا ۔نمازیں ٹھیک نہ دو صدقہ و خیرت اور جھوٹ سے کام لو پھر بھی خاص بن جاؤ یہ کبھی نہیں ہو سکتا ۔قاضی امیر حسین صاحب مرحوم خالص صحابی تھے ۔وہ بعض باتیں برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔جب حضور باہر آتے تھے لوگ کھڑے ہو جاتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ یہ جائز نہیں کھڑے ہونا یہ شرک ہے ۔آپ ؓ نے فرمایا کہ خلافت کا زمانہ آیا اور وہ مجھے دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے میں نے کہا تھا کہ قاضی صاحب یہ تو شرک ہے آپ کے نزدیک ۔کہنے لگے کہ رہا نہیں جاتا بے تاب ہو کر کھڑا ہو جاتا ہوں یہی بات ہے کہ جب بناوٹ سے کیا جائے تو وہ تکلف اور بناوٹ شرک ہو جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق کیسے کیسے نشان دکھاتا ہے ۔اس بارہ میں حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا ہوا ہے کہ ہارون الرشید کے زمانہ میں ایک بزرگ قید کر دئے گئے کہ ان کی وجہ سے فتنہ پیدا ہو سکتا ہے ۔ایک دفعہ آدھی رات کے وقت ان کے پاس رہائی کا حکم لے کر پہنچا ۔وہ حیران ہوئے کہ یہ حکم کس طرح ہوا انہوں نے بادشاہ سے پوچھا کہ کیوں رہا کر رہے ہو اس نے بتایا کہ میں نے خواب دیکھی کہ مجھے کسی نے جگایا ہے تو پوچھا کون ہے معلوم ہوا کہ محمد ﷺ ہیں میں نے کہا کیا حکم ہے تو انہوں نے فرمایا کیا بات ہے تم آرام سے سو رہے ہو میرا بیٹا قید میں ہے ۔بزرگ نے کہا مجھے بھی بڑا کرب تھا کہ رہائی ہو جائے ۔حضرت مصلح موعود ؓ بعد حوالہ دیتے ہیں ایک عاشق منشی اروڑے خان صاحب مرحوم کا ۔ان کی عادت تھی کہ ہر جمعہ یا اتوار کو قادیان پہنچ جاتے ۔جب آتے تھے تو سفر کا ایک حصہ پیدل طے کرتے تھے تا کہ رقم بچ جائے اور وہ حضور ؑ کو دے سکیں ۔وہ تنخواہ بہت تھوڑی تھی پندرہ بیس روپیہ تھی ۔آپ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کو ہمیشہ ایک ہی کوٹ میں دیکھا ہے دوسرا کوٹ نہیں کبھی دیکھا ۔ان کی بڑی خواہش ہوتی تھی کہ کچھ رقم جمع کر کے نذرانہ عقیدت پیش کر دیں ۔رفتہ رفتہ وہ تحصیلدار بھی ہو گئے ۔پھر مشہور واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے بعد آئے اور بلایا اور بڑی شدت سے رونا شروع کر دیا آپ نے کہا مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیا وجہ ہے ۔چار اشرفیاں سونے کی دیں یہ میں حضور ؑ کو دینا چاہتا تھا مگر اب وہ دنیا میں نہیں ہیں ۔آپ ؓ فرماتے ہیں کہ یہ ہوتا ہے عشق ۔اگر دنیا کی یہ نعمتیں ہیں اور ان سے آرام پہنچ سکتا ہے ۔تو ایک مومن کا دل ان کو استعمال کرتے ہوئے ضرور دکھتا ہے اگر یہ نعمتیں ہیں تو ضرور آنحضرت ﷺ کو ملتی ۔حضرت عائشہ ؓ کا واقعہ ۔اسی ضمن میں اپنے عشق کا واقعہ لکھتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ کے بعد آپ کے ضل کو ملتی ۔کہتے ہیں کہ میں چھوٹا ہی تھا کہ شکار کا شو ق پیدا ہوگیا ۔ایک ہوائی بندوق میرے پاس تھی جس سے شکار مار کر گھر لایا کرتا تھا ۔میں نے سنا ہوا تھا کہ شکار کا گوشت دماغی کام کرنے والوں کے لئے مفید ہوتا ہے ۔میں ہمیشہ یہ شکار حضرت مسیح موعود ؑ کو دے دیا کرتا تھا ۔کبھی خود نہیں کھایا تھا ۔جب محبت کامل ہو تو وہ اس کو محبوب کا حق سمجھتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآنی معارف بڑے بڑے مجھ پر کھولے ہیں ۔بیسیوں دفعہ میری زندگی میں یہ آیا کہ جب کوئی معارف کھلا تو میں یہ معارف حضور ؑ کے سامنے یا خلیفہ اول کے سامنے ذکر کرتا ۔اصل مقام حضرت مسیح موعود ؑ کا ہی ہے ۔خلیفہ اول کا خیال اس لئے آیا کہ وہ میرے استاد تھے اور ان کی خواہش تھی کہ میں قران کو پڑھوں اور مطالب نکالوں ۔ یہ تو قصہ تھا حضرت مسیح موعود ؑ کے عاشق کا جو قادیان جاتے تھے اور جانا چاہتے تھے اور خواہش ہوتی تھی کہ وہی بیٹھے رہیں ۔ایک طرف وہ لوگ تھے دوسری طرف بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن پر قادیان کا نیک ماحول مصیبت بن جاتا تھا ۔دنیاوی لذات ان پر اتنی غالب ہوتی تھی کہ وہ نیک ماحول سے جان چڑا کر بھاگتے تھے ۔ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص آیا اور ٹھہر کر چلا گیا ۔جنہوں نے بھیجا تھا انہوں نے خیال کیا کہ قادیان جائے گا اور کچھ دن ٹھہر کر حضرت مسیح موعود ؑ کی باتیں سنے گا اور دیکھے جب ایک دن ٹھہر کر چلا گیا تو بھیجنے والے نے پوچھا اتنی جلدی کیوں آگئے ہو ۔اس نے کہا توبہ کرو جی وہ بھی کوئی ٹھہرنے والی جگہ ہے ۔انہوں نے پوچھا بات کیا ہوئی ہے ۔اس نے کہا صبح کے وقت قادیان گیا مہمان خانہ میں ٹھہرایا گیا ۔اب حقہ پییئے گے ۔ایک شخص نے کہا بڑے مولوی صاحب حدیث کا درس دینے لگے ہیں درس سن لو ۔پھر کھانا کھانے کا کہا ہم نے کھانا کھا لیا پھر حقہ پیئے گے ۔پھر کسی نے کہا ظہر کی اذان ہو چکی ہے ۔تو مرزا صاحب بیٹھ گئے تو باتیں سننے لگے پھر چل کر حقہ پیئے گے ۔پھر پیشاب پاخانہ سے فارغ ہو کر بیٹھے کہ حقہ کے دو کش لگائے تو کسی نے کہا عصر کی اذان ہو گئی ہے نماز پڑھ لو ۔عصر کے بعد اب شام تک حقہ کی آزادی ہوگی ۔اور کسی نے کہا بڑے مولوی صاحب قرآن کا درس ہوگا ۔پھر بڑی مسجد میں گئے بڑی مسجد سے واپس آئے تو مغرب کی اذان ہو گئی ۔پھر ہم مغرب کے لئے چلے گئے اور نماز کے بعد مرزا صاحب بیٹھ گئے پھر وہاں سے آئے کہ پھر حقہ پینے کا موقع ملے ۔پھر کھانا آگیا پھر خیال کیا اب تسلی سے حقہ پیئے گے کہ عشاء کی اذان ہو گئی پھر نماز کے بعد شکر کیا کہ اب تو اور کوئی کام نہیں رہا ۔اب فرصت ہے حقہ پیتے ہیں ۔کہ پتہ لگا کہ باہر سے آنے والوں کو بڑے مولوی صاحب واعظ کرتے ہیں ۔ہم کو وہیں نیند آگئی ۔پھر وہاں سے بھاگا کہ اب شریف آدمی کی جگہ نہیں ہے ۔یہ سب نشہ کرنے والوں کے لئے اس میں ایک سبق ہے ۔ اب میں دنیا کے حالات ہو رہے ہیں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ جس تباہی کی طرف دنیا تیزی سے جا رہی ہے اس کے لئے احباب جماعت کو بہت زیادہ دعا کرنی چاہیے نام نہاد اسلامی حکومت جو عراق اور شام میں قائم ہے جس کے خلاف اب مغربی حکومت نے فرانس کے واقعہ کے بعد یہ حملے کرنے ہیں تو اگر ان حکومتوں نے کرنے ہیں تو یہ عوام الناس کو محفوظ رکھیں ۔شام والے تو ایک چکی میں پس رہے ہیں ۔نہ ادھر کا راستہ ہے پھر ہمسایہ مسلم ممالک بھی اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئے سنجیدہ نہیں ہیں ۔ابھی بھی کہا جاتا ہے کہ بعض اسلامی ممالک اس سے تجارت بھی کر رہے ہیں ۔روس ترکی پر اس کا الزام لگا رہا ہے گو ترکی اس کو رد کرتا ہے ۔بہرحال کچھ نہ کچھ تو ہو رہا ہے اس کے بارہ میں کئی سال سے کہہ رہا ہوں ۔اس میں روس بھی شامل ہے ۔روس مبشر الاسد کی طرف داری کر رہا ہے ۔باقی دنیا اس کےخلاف ہے ۔اس وقت بہرحال داعش کے ٹارگٹ مشترکہ ہیں ۔اس کے باوجود اختلاف ہیں َچین کی حکومت روس کے ساتھ ہے ۔اگر حالات خراب ہوتے ہیں ۔پھر روس کا جہاز ترکی نے گرایا اس کے بعد یہ دشمنوں کے اعلانات بڑھتے چلے جا رہے ہیں ۔اب یہ بھی سنا ہے کہ عراق شام کے علاقہ کو چھوڑنا پڑا تو لیبیا میں اپنے اڈے قائم کریں گے ۔تو پھر ہوائی حملے بعد میں لیبیا پر بعید نہیں کہ وہاں کریں گے ۔مغربی ممالک پہلے انہی حکومتوں کی مدد کرتے رہتے ہیں پھر ان کے خلاف ہو جاتے ہیں ۔لیبیا شام کے خلاف ہو کر ان کی حکومت کو الٹانے کے لئے لگے ہوئے یہ ایک لمبے عرصہ سے انصاف نہ کرنے کی وجہ سے ہے ۔بد قسمتی سے مسلمان حکومتیں بھی لگی ہوئی ہیٍں گویا ایسے حالات ہیں کہ جنگ عظیم شروع ہو چکی ہے ۔اس بات کی طرف میں توجہ دلا رہا ہوں ۔لیکن اب بھی یہی لگ رہا ہے کہ انصاف سے کام لینے کی طرف توجہ نہیں ہے ۔نہ بڑی طاقتوں کو نہ مسلمان حکومتوں کو ۔بظاہر لگتا ہے کہ اس کے خلاف کاروائی کر رہے ہیں ۔تو امن کے حالات پیدا ہو جائیں گے ۔لیکن بعض حالات اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ فتنہ ختم ہو بھی گیا تو حالات نہیں سدھریں گے پھر بڑی طاقتوں کی آپس میں لگ جائے گی رنجش بڑھتی جائے گی ۔پھر جنگ شروع ہو جائے گی ۔عوام ہی مرتے ہیں اس لئے بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے ۔اس کے علاوہ بھی احتیاطی تدابیر کے لئے جماعت کو توجہ دلائی تھی ۔پھر میں توجہ دلاتا ہوں کہ دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں کہ حکومتوں اور طاقتوں کو عقل دے کہ تباہی کی طرف نہ دنیا کو لے کر جائیں ۔
No comments:
Post a Comment