Friday 25 December 2015

Love for All Hatred for None


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ 25 دسمبر 2015 بیت الفتوح یوکے(مرتب کردہ یاسر احمد ناصر مربی سلسلہ ) تشہد و سورة الحمدللہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : یہ دن قادیان میں جلسہ سالانہ کے دن ہیں کل سے جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے اسی طرح آج آسٹریلیا کا جلسہ ہو رہا ہے اور بعض ملکوں میں ہو رہے ہونگے اور ہونے والے ہونگے ۔اللہ تعالیٰ ان تمام جلسوں کو بابرکت فرمائے اور اشرار کے شر سے محفوط رکھے ۔آمین ۔قادیان کے جلسہ کی اس وجہ سے اہمیت زیادہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی بستی ہے اور یہی پہلا جلسہ اذن الہی سے ہوا۔حضرت مصلح موعود ؓ نے اپنے خطبات اور خطابات کے میں اس زمانہ سے بھی آگاہی دی ہے جو جماعت کی ابتداء تھی ۔جہاں جلسوں کا ذکر ہے وہاں الہامات کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ کس طرح الہامات کو پورا ہوتا دکھایا یا دکھا رہا ہے ۔بعض الہامات آئندہ زمانہ کے بارہ میں ہیں یا ایک دفعہ پورے ہو چکے اور آئندہ بھی ہونگے ۔حضرت مصلح موعود ؓ ایک ابتدائی جلسہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔1936 میں آپ فرما رہے ہیں کہ 40 سال قبل مدرسہ احمدیہ کی جگہ ایک فصیل تھی جو ٹوٹی پھوٹی تھی جو قادیان کو گھیرے ہوئے تھی ۔وہ حفاظت کے لئے تھی اور خاصی چوڑی تھی ایک گڈا اس پر چل سکتا تھا ۔جب اس کو تڑوا کر نیلام کیا تو اس کا کچھ ٹکرا مہمان خانہ بنانے کے لئے لے لیا ۔کہتے ہیں میں نہیں کہہ سکتا وہ 93 تھا 94 یا 95 تھا یہی دسمبر کے دن تھے یہی موسم تھا یہی مہینہ تھا۔کچھ لوگ جو احمدی نہ تھے ۔نام احمدی 1901 میں رکھا تھا وہی لوگ یہی مقاصد لے کر قادیان جمع ہوئے ۔کہتے ہیں کہ پتہ نہیں کاروائی کا کام کہاں ہوا تھا ۔میں اس وقت اس اجتماع کی اہمیت کو نہیں سمجھتا تھا ۔میں ان کے درمیان دوڑتا پھرتا تھا اور کھیلتا تھا۔کچھ لوگ جمع تھے اور حضور ؑ کے گرد جمع تھے دری ایک تھی اور کچھ لوگ بیٹھے تھے ڈیڑھ سو ہونگے یا دو سو ۔بچے ملا کر اڑھائی سو ہونگے ۔کہتے ہیں میں نہیں کہہ سکتا کیوں مگر میں اتنا جانتا ہوں وہ دری تین جگہ سے بدلی گئی ۔کہتے ہیں کہ بچپن کی عمر کے لحاظ سے کہ دری کی جگہ بدلی گئی ۔آج جو لوگ قادیان میں جلسہ کی غرض سے ہیں ۔وہ شائد اس وقت کی حالت کا اندازہ نہ کر سکتے ہوں ۔اب وسیع جلسہ گاہ میسر ہے جو پکی چار دیواری سے گھیرا گیا ہے ۔1936 کے دور میں بھی مزید وسیع انتظام ہوتے گئے ۔قادیان پر بعد میں ایسا دور بھی آیا جب صرف دارالمسیح اور چند گھروں تک احمدی محدود ہو گئے ۔چند سو کے سوا سب کو ہجرت کرنی پڑی ۔احمدی جو تھے چند ایک وہ بھی بہت کمزور تھے ۔لیکن آج پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان میں وسعت پیدا ہو رہی ہے ۔جانے والے آج صرف اس وسعت کو دیکھ رہے ہیں ۔جو باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں ۔تاریخ میں نظر ڈالیں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش نظر آتی ہے ۔آج ربوہ کے رہنے والے بھی ان دنوں بے چین ہونگے ۔کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے ۔انشاء اللہ تعالیٰ وہاں بھی حالات بدلیں گے اور وہاں بھی رونقیں قائم ہونگی ۔پاکستان میں رہنے والوں کو ربوہ میں رہنے والوں کو دعاؤں کی طرف توجہ دینا ہوگی ۔خدا کہتا ہے کمزوری نہ دکھاؤ اور غم نہ کرو جب کہ یقینا تم ہی غالب آنے والے ہو ۔ حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ فرماتے ہیں : پس ایمان میں زیادتی اور دعاؤں پر زور اللہ تعالیٰ کےفضلوں کو جذب کر کے حالات پھر بدلیں گے ۔حضرت مصلح موعود ؓ مزید اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ ان کو اٹھایا جاتا تھا کہ اس نیت سے اور اس ارادہ سے کہ اسلام کمزور ہو گیا ہے وہ ایک ہی نور جس کے بغیر روشنی نہیں ہو سکتی ۔اس کو بجھانے کے لئے پورا زور لگا رہے ہیں ۔اس ایک ارب اور 25 کڑور کے زمانہ میں جو 1936 کی آبادی ہوگی ۔250 لوگ جو بہت غریب تھے وہ اس ارادہ سے جمع تھے کہ محمد ﷺ کا جھنڈا جسے دشمن نیچے کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس کو نیچا نہیں ہونے دیں گے بلکہ اس کو پکڑ کر سیدھا رکھیں گے ۔جن کے چہروں پر وہی کچھ لکھا تھا جو بدری صحابہ ؓ کے چہروں پر تھا ۔جیسا کہ بدر کے صحابہ نے کہا بیشک ہم کمزور ہیں اور دشمن طاقتور ۔مگر وہ آپ ﷺ تک نہیں پہنچ سکتا کہ جب تک ہماری لاشوں سے نہ گزرے ۔ان کے چہرہ بتا رہے تھے کہ وہ زندہ موتیں ہیں ۔جو دین کے قیام کے لئے ایک آخری جدو جہد کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں ۔دیکھنے والے ان پر تمسخر کرتے تھے کہ کیا کام کریں گے ۔وہ جگہ صرف اتنی تھی جتنی سٹیج کے لئے ہوتی ہے اتنی ہی تھی ۔فرماتے ہیں : لوگ کہتے ہیں کہ جب یوسفؑ مصر کے بازار میں بکنے کے لئے آئے ایک بڑھیا بھی کچھ پیسے لئے خریدنے کے لئے نکلی ۔دنیا کے لوگ اس واقعہ کو سنتے ہیں اور ہستے ہیں اور روحانی لوگ یہ سن کر روتے ہیں ۔جہاں کسی چیز کی قدر ہوتی ہے وہاں ہنسی کی پروا نہیں ہوتی ۔ پس اس وقت حضرت مصلح موعود ؓ نے اپنے سامنے بیٹھے چند ہزار لوگوں کو کہا تھا کہ ان دو اڑھائی سو کی آہوں کے نیتجہ کو تم دیکھ رہے ہو ۔یعنی اس میدان میں ان لوگوں کی آہیں تھیں کہ اب تم وسیع میدان میں ہو ۔آج جیسا کہ بتایا کہ قادیان کی جلسہ گاہ وسیع ہو چکی ہے ۔ ایک وسیع میدان ہے ۔تمام سہولتیں میسر ہیں ۔اب کئی زبانوں میں کئی آوازیں پہنچائی جاتی ہیں ۔اب بھی تمام لوگ اپنے آپ میں وہ ایمان اور اخلاص پیدا کریں جو ان دو سو لوگوں میں تھا ۔جس کی مثال حضرت مصلح موعود ؓ نے دی ہے اسی طرح آسٹریلیا میں اور افریقہ میں جلسہ ہو رہا ہے اس نیت سے جمع ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھے ہیں جس طرح انہوں نے آہیں نکالیں تھیں آپ بھی ایسی ہی آہیں نکالیں ۔ہماری تعداد اب بھی بہت معمولی ہے مگر ہم نے وہی کام کرنے ہیں جو ہمارے آباؤ اجداد نے کی ہے ۔ہمارا مقصد بہت بڑا ہے جس کو ہم نے حاصل کرنا ہے ۔یہ تمام لوگ جو جلسہ میں شامل ہیں ان دنوں بہت دعائیں کریں ۔حضرت مصلح موعود ؓ نے جو یہ بات کی کہ ایسے نشان ہزاروں ہیں ۔ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ یاتیک من کل فج عمیق ۔یا توک من کل فج عمیق ۔دور دور سے لوگ آئیں گے اور دور دور سے تحائف تمہارے لئے لائیں گے ۔جب یہ الہام ہوا اس کو دیکھنے والے اب بھی موجود ہیں ۔اب بھی نظارہ یاد ہے مدرسہ کے قریب ڈھاب تھی ۔مدرسہ کی جگہ لوگ دن کو نہیں جاتے تھے کہ آسیب زدہ ہے ۔اکیلا کبھی نہ جاتا تھا ۔بلکہ دو تین مل کر جاتے تھے ۔بلکہ ان کا خیال تھا یہاں جانے سے جن چڑ جاتا تھا ۔یہ ویران جگہ تھی ۔پھر یہ کہتے ہیں کہ میرے تجربہ سے باہر تھا ۔قادیان میں دو تین روپیہ کا آٹا بھی نہ ملتا تھا ۔کہتے ہیں یہ تو ہم کو بھی یاد ہے جب کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو حضور ؑ کسی کو لاہور یا امرتسر بھیجتے ۔اور منگواتے تھے ۔لوگ کوئی نہ آتے تھے ۔ فرمایا: مجھے وہ دن بھی یاد ہیں میں چھوٹا سا تھا برسات کے موسم میں ایک گھڑا تھا مجھے اٹھا کر آگے کیا گیا ۔کبھی کوئی اٹھا لیتا کوئی کبھی ۔کوئی ترقی نہ تھی ۔مگر ایک رنگ میں ترقی کا زمانہ تھا ۔اس وقت حافظ حامد علی آ چکے تھے ۔جب کوئی نہ جانتا تھا تب یہ وعدہ تھا دور دور سے لوگ آئیں گے اور دور دور سے تحائف لائیں گے ۔اے وہ شخص جو کو اس کے محلہ کے لوگ بھی نہیں جانتے ۔جس کی گمنامی کی یہ حالت تھی کہ مرزا غلام احمد کا ایک ہی بیٹا ہے ۔میں تجھ جیسا شخص کو عزت دونگا ۔عزت چل کر پاس آئے گی ۔ ۔اگر ابو جہل نہ ہوتا تو قرآن اتنا کیسے اترتا ۔آج بھی نظارہ ہم دیکھتے ہیں دنیا کے ملکوں سے لوگ وہاں ہیں نئی عمارتیں بن رہی ہیں ۔پھر جلسہ سالانہ کی مہمان نوازی کےحوالہ سے ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔آخری جلسہ جو حضرت مسیح موعود ؑ کا تھا کل 700 آدمی تھا ۔انتظام بہت خراب ہوا۔رات کے تین بجے تک کھانا نہ مل سکا۔الہام ہوا اے نبی بھوکے اور پریشان حال کو کھانا کھلاؤ ۔صبح معلوم ہوا رات تین بجے تک کھانا نہ ملا ۔نئے سرے سے دیگیں چڑھائی گئی اور کھانا کھلایا گیا ۔ان 700 آدمیوں کا یہ حال تھا کہ سیر کے لئے بھی ساتھ ہوتے تھے ۔روحانی نظاروں میں یہ نظارہ بھی عجیب تھا ۔حضرت صاحب ایک قدم چلتے تو ٹھوکر کھا لیتے ۔اور جوتی اتر جاتی ۔یہ حالت ہوتی تھی سیر کے وقت جاتے ہوئے ۔ایک ذمیندار دوست نے کہا او تو مسیح موعود دا دست پنجہ لے لیا ۔اتھے دست پنجہ لین دا کیڑا ویلا ۔یعنی بہت رش ہے مصافحہ بھی نہیں ہو رہا ۔اس پر جو عاشق ذمیندار تھا ۔کہنے لگا تجھے پھر یہ موقع کب نصیب ہو گا ۔بیشک تیرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں مصافحہ کر جا۔ اور آ ج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید کے نظارے کیسے ہیں ہزاروں لوگ جمع ہیں اور مہمان نوازی بھی ہو رہی ہے ۔پھر اس جلسہ کے وقت حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ بھی فرمایا تھا ۔کہ بہت وسعت پیدا ہو چکی ہے کہ لگتا ہے کہ اب ہمارا کام ختم ہو گیا ۔حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا جتنے لوگ آخری سال جمع ہوا ہے ۔بار بار فرماتے تھے کہ جس کام کے لئے بھیجا ہے وہ کام ہو گیا ہے ۔اب تو جمعہ کے دن بھی ہزاروں لوگ ہوتے ہیں ۔یہ اللہ تعالیٰ کی تائید کا عظیم الشان نشان ہے ۔جن جماعتوں کے ساتھ یہ تائیدہوتی ہے وہ اس طرح بڑھتی ہے ۔اور دشمن کی دشمنی کے باوجود جماعت کو بڑھاتا چلا جاتا ہے اور ترقی دیتا چلا جاتا ہے ۔یہ چیز بہت خوشی کا موجب ہے مگر ساتھ ہی ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتی ہے ۔جس کے لئے ہم نے حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت کی تھی ۔اب برصغیر میں ہی نہیں بلکہ آج 200 سے زیادہ ملکوں میں جماعت بڑھ رہی ہے ۔حاسدوں کا حسد بڑھ رہا ہے ۔اب دو دن پہلے گرگستان میں ایک مقامی احمدی کو شہید کر دیا گیا ۔اب کچھ دیر پہلے بنگلہ دیش میں ہماری مسجد میں بھی دھماکہ ہوا ۔غالبا خود کش دھماکہ ہوا ہے ۔اللہ تعالیٰ ان سب کو جلد شفا دے چار کے قریب لوگ زخمی ہوئے ہیں ۔یہ حسد بڑھ رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے غالب آنا ہے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک الہام ہے جو ذو معنی ہے ۔ہم اس کے خاص معنی نہیں کر سکتے ۔’’لنگر اٹھا دو ‘‘ اگر کشتی کا لنگر لیا جائے تو معنی باہر نکل جاؤ اور پیغام ہر جگہ پھیلا دو ۔دوسرے معنی کئے جائیں تو یہ لوگ بہت بڑھ گئے ہیں کہ آنے والوں کا اتنا رش ہو گیا ہے کہ کہا جائے کہ مہمانوں کو ٹھہرانا انسانی طاقت میں ہے تو یہی ہدایت ہے کہ وسیع مکانک ۔اور جہاں جہاں بھی یہ کر سکتی ہیں وہاں رہائش کے لئے عارضی اور مستقل انتظام کرتے رہنا چاہیے ۔اب نئے نئے گیسٹ ہاؤس بن رہے ہیں اور مہمانوں کو جس طرح کی سہولت کی جا سکتی ہے کی جاتی ہے ۔بہرحال گھر کی طرح کی تو نہیں۔ مہمانوں کو بھی چاہیے کہ صرف سہولتوں کی طرف نہ دیکھیں بلکہ جو مقصد ہے وہ پورا کریں ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے ایک اور الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : کہ جماعت کے وہ تمام دوست جو آ سکتے ہیں وہ تمام جمع ہویں ۔اب بھی سفر کے وسائل ہمارے ایسے نہیں ہیں جو بہت مالدار ہوں ۔جو دور دراز کے ممالک سے جلسہ سالانہ کے ایام میں قادیان پہنچ سکیں ۔لیکن اگر ایسے لوگ ہماری جماعت میں شامل ہوں تو ان دور دراز کے ممالک کے لئے جہاں سفر میسر ہے یہاں پہنچنا ممکن ہے ۔آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے ممالک سے لوگ قادیان پہنچتے ہیں ۔بہت سے لوگ ہوتے ہیں کہ ترقی کے شروع ہونے پر سست ہو جاتے ہیں ۔ایسے لوگوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی جلسہ پر آ سکتا ہے مگر سستی کرتا تو اس کا اثر اس کی اولاد پر پڑتا ہے ۔جو ایک جلسہ کے لئے سال میں آ جاتے ہیں ان میں احمدیت قائم رہتی ہے ۔بچہ کے لئے بھی یہ اجتماع ایک اچھا نظارہ بن جاتا ہے ۔اپنے ملکی جلسون میں بھی ضرور شامل ہونا چاہیے ۔جو باپ آتا ہے وہ اپنی اولاد کے دل میں بھی یہ لو لگا دیتا ہے ۔پس ان ایام میں کسی ایسے بہانہ کی وجہ سے ترک کر دینا جو ختم کیا جا سکتا وہ اپنی اولاد پر بھی ظلم ہے ۔ہندوستان کے احمدیوں کو خاص طور پر کوشش کر کے قادیان آنا چاہیے ۔لیکن کسی زمانہ میں بڑے بڑے مالدار ہماری جماعت میں شامل ہو جائیں تو دنیا کے ہر گوشہ سے لوگ اس بستی میں آئیں گے ۔آج سے 60 سال قبل بہت مشکل تھا کہ دنیا کے ممالک سے لوگ نہیں آ سکتے ۔اب اگر کسی وقت امریکہ میں لوگ مالدار ہوں تو وہ اپنی عمر میں ایک دو دفعہ قادیان کے لئے بھی آئیں ۔الزام لگایا جاتا ہے کہ حج پر نہیں جاتے ۔یہاں فرمایا حج کے علاوہ قادیان میں بھی جائیں ۔کیونکہ قادیان میں علمی برکات میسر آتی ہیں ۔بستی کی اپنی ایک روحانی کیفیت ہے ۔جو جا کر ہی احساس ہوتا ہے ۔آپ ؓ نے فرمایا میں تو یقین رکھتا ہوں کہ دور دراز سے لوگ یہاں آئیں گے ۔ایک رویا تھا کہ ہوا میں تیر رہے ہیں عیسی ؑ پانی پر چلتے تھے میں ہوا میں تیر رہا ہوں میرے خدا کا فضل مجھ پر بہت بڑھ کر ہے ۔اس رویا سے مراد ہے وقت آنے والا ہے کہ ہوائی جہاز سے بھی لوگ آیا کریں گے ۔یہ خبر بھی ملا کرے گی کہ فلاں ملک سے اتنے ہوائی جہازآئے ہیں ۔اب یہ نظارہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ بعض ایسے مقامی لوگ ہیں جن کا تصور نہ تھا ۔یہ بھی بعید نہیں کہ کسی وقت سپیشل طیارہ جلسہ کے لئے روانہ ہوں ۔مکہ اور مدینہ کے بعد قادیان کو مرکز بنایا ہے ۔آپ اسلام کے بانی اور آقا اور استاد ہیں ۔مکہ اور مدینہ کے بعد جس مقام کو دنیا کا مرکز کہا ہے وہ بستی قادیان ہے ۔آج کل مکہ اور مدینہ جو کسی وقت تبلیغی مرکز تھے آج یہ فرض بھلائے ہوئے ہے ۔یہ حالت ہمیشہ نہیں رہے گی ۔جب احمدیت وہاں پر قائم کی جائے گی تو ہم یہ دن دوبارہ دیکھیں گے ۔ ایک نصیحت ہے جو قابل غور ہے جلسہ میں شامل ہونے والون کے لئے ۔حضور ؓ فرما رہے ہیں : ہر خوشی کے ساتھ تکلیف بھی ہوتی ہے جہان پھول ہوں وہاں کانٹے ہیں ۔ترقی کے ساتھ حسد اور اقبال کے ساتھ زوال ہے ۔اچھی چیز میں راہ میں مخالف طاقتیں بھی ہوتی ہیں ۔اصل بات ہے کہ کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا جب تک مصائب نہ برداشت کرے یہی وجہ ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کو تکلیف اٹھانی پڑتی ہے ۔ابتلاء میں کچے ایمان والے مرتد ہو جاتے ہیںٰ ۔فرمایا : مجھے یاد ہے ایک دفعہ پشاور سے مہمان آیا ۔اس زمانہ میں مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھتے تھے اور مہمان ملتے تھے ۔مفتی محمد صادق صاحب کی روایت ہے جلسہ کے دن میں حضور ؑ کے گرد بہت لوگ تھے ۔ایک شخص نے مصافحہ کیا اور ساتھی سے پوچھا تم نے مصافحہ کیا کے نہیں ۔تم مصافحہ کرو ۔نبی کو دیکھ کر جوش وسیع ہوتا ہے ۔آپ ؑ کے قریب بیٹھنے کے لئے دوڑ پڑتے تھے ۔ایک شخص کے مقدر میں ابتلاء تھا اس کو خیال نہ آیا اس کو سنتیں پڑھنی شروع کی کہ لمبی کر دیں مگر جب انتظار کرنے والوں نے قریب کی جگہ کو بڑھ کر دیکھا تو وہ حضور ؑ کے پاس جا بیٹھے اور کسی کی کونی اس کو لگی اور سخت ناراض ہوا اور کہنے لگا کہ اچھا نبی اور مسیح موعود ؑ اس کی مجلس کے لوگ نماز پڑھنے والوں کو ٹھوکر مارتے ہیں اور مرتد ہو کر چلا گیا ۔اس کی مثال ایسی ہو گئی کہ جب روشنی آئے تو نور چلا جاتا ہے ۔قادیان آنے والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر تکلیف پہنچے تو ٹھوکر نہ کھا جائیں ۔اس تکلیف کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔مہمان نوازی کرنے والے پوری کوشش کرتے ہیں مگر پھر بھی کمیاں رہ جاتی ہیں ۔ اگر کوئی تکلیف پہنچے تو خوشی سے برداشت کرلیں ۔ٹھوکر کا باعث نہ بنائیں ۔اللہ تعالیٰ قادیان کا جلسہ بھی اور باقی بھی برکتوں سے یہ دن گزارے اور ہر جلسہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا ہو اور سب شاملین حضرت مسیح موعود ؑ کی دعاؤں کے وارث بنے ۔خود بھی دعائیں کریں ۔ گرگستان میں ایک احمدی کو جن کو یونس عبد الجلیل صاحب تھا 22 دسمبر کو 8 بجکر 50 منٹ پر ایک گاؤں میں آپ کو دو افراد نے فائرنگ کی اور موصوف شہید ہو گئے ۔اپنے گھر کے باہر یونس صاحب کسی ہمسایہ کے ساتھ تھی 12 گولیاں چلائی 7 جسم کے آر پار ہو گئے ۔صرف یونس صاحب پر فائرنگ ہوئی ۔ان کی وفات ہو گئی ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ان کے رشتہ داروں نے کسی جاننے والے سے ہی جنازہ پڑھایا ۔مولوی بھی شریف تھے یہ کہا کہ موت نہایت ظالمانہ طریق پر ہوئی ہے اس طرح کسی کو قتل کرنا ظالمانہ ہے ۔احمدیوں نے نماز جنازہ غائب ادا کیا اور تدفین بھی ہو گئی ۔کرائم والے وہ تفتیش کر رہے ہیں جماعت کے بعض افراد کو اپنے دفتر لے گئے اور ان کی معلومات دی گئی اور وہ یہ سن کر بہت حیران ہوئے انہوں نے وعدہ کیا کہ ہم اس حقیقت کو سامنے لانے کے لئے کوشش کریں گے ۔دو قاتلوں کو پکڑ لیا ۔ان کا بھی جڑ سیریہ سے جا کر ملتی ہے انہوں نے بتایا کہ سیریہ کے چار افراد ہیں جن کو تم نے قتل کرنا ہے ۔پہلے حملہ ہوا ہے مردہ سمجھ کر چلے گئے تھے یہاں ان کو شہید کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے ۔بہرحال پولیس پکڑنے کی کوشش کر رہی ہے اللہ کرے کہ تمام کیفرکردار تک پہنچیں ۔مقامی احمدیوں کا رد رعمل ہے لکھ کر بھیجا ہے کاشگر جماعت کے افراد غمگین بھی ہیں اور ہم اس شہادت کے بعد بھی نبی کریم ﷺ کے غلام کے پیغام کو پھیلاتے چلے جائیں گے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مضبوط ایمان کے لوگ ہیں 1978 میں پیدا ہوئے 2008 میں بیعت کی ۔اور مخالفت بھی ہوئی ۔بیعت کے بعد بہت تبدیلی آئی جب بھی دین کی کوئی نئی بات سیکھتے بہت خوش ہوتے ۔شہادت کے وقت جنرل سیکرٹری کی خدمت کر رہے تھے ۔اہلیہ اور تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ۔سوگوار چھوڑے ہیں ۔ہمارے مبلغ وہاں رہ چکے ہیں وہ لکھتے ہیں یونس صاحب اکیلے احمدی تھے بعد میں اہلیہ نے بیعت کر لی بہت پیارے اور فدائی احمدی تھے ۔ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے دین سیکھنے کا بہت شوق تھا نماز خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے ۔جماعتی نمائندگان کا بہت احترام کرتے تھے ۔روس کی زمین میں یہ اسلام اور احمدیت کی راہ میں خون پیش کرنے والے پہلے شہید ہیں ۔ان کے خون کا قطرہ بیشمار نیک فطر ت اور شہید لوگوں کو جماعت میں شامل کرے ۔اور اللہ تعالیٰ ان پر بے شمار فضل فرمائے ۔نماز جنازہ غائب نماز کے بعد پڑھاؤنگا۔

No comments:

Post a Comment