Friday 1 January 2016

Love for All Hatred for None


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ 01 جنوری 2016 بیت الفتوح یوکے(مرتب کردہ و طالب دعا : یاسر احمد ناصر مربی سلسلہ ) تشہد و سورة الحمدللہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا :آج نئے سال کا پہلا دن ہے اور جو جمعة المبارک کے برکت دن سے شروع ہو رہا ہے ۔حسب روایت نئے سال کے شروع پر ہم ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں ۔مجھے بھی نئے سال کے پیغام موصول ہو رہے ہیں ۔مغرب یا ترقی یافتہ ممالک میں نئے سال کی ساری رات شراب نوشی ہٹر بازی میں گزاری جاتی ہے ۔بلکہ مسلمان ممالک میں بھی اسی طرح سال نیا منایا جاتا ہے ۔دوبئی میں بھی اسی طرح تماشہ دکھایا گیا ۔63 منزلہ عمارت کو آگ لگی جس سے آگ ڈھیر ہو گئی ۔تباہی ہوتی ہے تو ہوتی رہے ۔ہم تو اس کے قریب اپنے پروگرام کے مطابق تماشے کریں گے ۔ویسے تو اس وقت مسلمان ملکوں کی حالت اکثر کی بری ہے ۔لیکن بہرحال یہ دنیا داری کے اظہار ہیں ۔اگر آگ وہاں نہ بھی لگی ہوتی تو اس حالت کا یہ تقاضہ تھا ۔مسلمان امیر ملک یہ اعلان کرتے ہیں ۔کہ ہم ان چیزوں میں پیشہ برباد کرنے کی بجائے متاثرین کی مدد کریں گے ۔لیکن یہاں تو اپنی تعلیم بھول کر یہ حال ہے کہ کچھ دن پہلے دوبئی سے خبر آرہی تھی کہ ان کا سب سے بڑا ہوٹل جو ہے اس میں دنیا کا مہنگا ترین کرسمس ٹریٹ لگایا گیا جس کی مالیت 11 ملین ڈالر کی تھی ۔یہ مسلمان ممالک کی ترجیحات ہو چکی ہیں َلیکن ۔احمدیوں نے بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے اپنی رات عبادت میں گزار دی ۔یا صبح جلدی جاگ کر نفل پڑھ کر نئے سال کے پہلے دن کا آغاز کیا ۔بہت جگہ پر تہجد بھی پڑھی گئی ۔اس کے باوجود ہم غیر مسلم ہیں ۔اور یہ ہلڑ بازی کرنے والے مسلمان ہیں َبہرحال ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمان ہیں ۔ہم کو کسی سند کی خواہش ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں حقیقی مسلمان کی سند لینی ہے ۔اس کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ سال کے پہلے دن انفرادی یا اجتماعی تہجد پڑھ لی ۔یا صدقہ دے دیا ۔اور اس سے خدا کی رضا مل گئی ۔بیشک یہ نیکی اللہ کے فضلوں کو جذب کرنے والی ہو سکتی ہے ۔لیکن تب جب استقلال پیدا ہوگا۔اللہ تعالیٰ کو مستقل نیکیاں اپنے بندوں سے چاہتا ہے ۔ حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : تہجد کے ساتھ ایک پاک انقلاب پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔تب خدا تعالیٰ راضی ہوتا ہے ۔کسی قسم کی ایسی نیکی جو ایک دن یا دو دن کے لئے ہو وہ نیکی نہیں ہوتی ہے ۔کس قسم کے رویہ ہم کو اپنانے چاہیں جو خدا تعالیٰ کی رضا ملے ۔اس کے لئے میں نے آج زمانہ کی اصلاح کے لئے بھیجے ہوئے کی بعض نصائح کو لیا ہے ۔جو آپ نے اپنی جماعت کو کیں تا کہ مستقل مزاجی اور ایک تسلسل کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشش کرتے رہیں۔یہی باتیں جو سال کے پہلے دن ہی نہیں سال کے بارہ مہینے اور 365 دنوں کو با برکت کریں گی ۔اور ہم اللہ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بن سکیں گے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں : اب دنیا کی حالت کو دیکھو ہمارے نبی کریم ﷺ نے عمل سے دکھایا میرا مرنا اور جینا اللہ کے لئے ہے اور یا اب دنیا میں مسلمان موجود ہیں پوچھنے پر الحمد للہ مسلمان ہونے کا کہتا ہے ۔مگر یہ دنیا کے لئے جیتے ہیں ۔اور دنیا کے لئے مرتا ہے اس وقت تک کہ غرغرہ نہ شروع ہو جائے دنیا ہی مقصود و مطلوب رہتی ہے ۔پھر کیونکر کہہ سکتا ہے نبی کریم ﷺ کی پیروی کرتا ہوں ۔بڑی غور طلب بات ہے ۔مسلمان بننا آسان نہیں ہے ۔رسول کریم ﷺ کی اطاعت اور اسلام کا نمونہ اپنے اندر پیدا نہ کرو تو مطمئن نہ ہو ۔اگر صرف نام کے مسلمان ہو تو رسول کریمﷺ کا اسوہ نہیں اپنانے تو صرف نام اور چھلکا ہی ہے ۔کسی یہودی سے کہا مسلمان ہو جا اس نے کہا تو صرف نام پر ہی خود نہ ہوجا ۔میں نے اپنا نام خالد رکھا تھا ۔اور شام سے پہلے ہی دفن کر دیا ۔اس نام سے اس کو زندگی نہ ملی ۔پس حقیقت کو طلب کرو نرے نام پر راضی نہ ہو ۔کس قدر شرم کی بات ہے انسان عظیم الشان نبی کا امتی ہو کر کافر سی زندگی گزارے ۔تم اپنی زندگی میں محمد ﷺ کا نمونہ دکھاؤ ۔وہی حالت پیدا کرو اور اگر وہ نہیں تو پھر تم شیطان کے ساتھ ہو ۔غرض یہ بات سمجھ آ سکتی ہے اللہ تعالیٰ کا محبوب ہونا زندگی کا مقصد ہونا چاہیے ۔جب تک خدا کی محبت نہ ملے کامیابی کی زندگی بسر نہیں کر سکتے ۔یہ عمل پیدان ہیں ہوتا جب تک سچی اطاعت رسول کریم ﷺ کی نہ کرو ۔آپ ﷺ نے عمل سے اسلام دکھایا وہی اسلام تم بھی اپنے اندر پیدا کرو ۔ اسلام دنیا کی نعمتوں سے منع نہیں کرتا ۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :اسلام نے رہبانیت کو منع کیا ہے مومن کے تعلقات دنیا سے جس قدر وسیع ہوں اتنا بہتر ہے ۔اور دنیا کا ما ل و جا دین کا خادم ہوتا ہے ۔حصول دنیا میں بھی اصل غرض دین ہو ۔ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جائے کہ وہ دین کی خادم ہو ۔انسان جب کسی جگہ پر جانے کے لئے زاد راہ ساتھ لیتا تو اصل غرض منزل ہوتی ہے ۔اسی طرح دنیا کو حاصل کرے مگر دین کا خادم سمجھ کر ۔فرمایا : اے ہمارے رب اس دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی ۔اس میں بھی دنیا کو اول رکھا ایسی دنیا جو آخرت میں بھی حسنات کا موجب بن جائے ۔مومن کو دنیا کے حصول میں آخرت کے حسنات کا خیال رکھنا چاہیے ۔دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کو حاصل کرنے سے بھلائی اور خوبی ہو نا وہ طریق جس سے دوسرے کو تکلیف ہو ۔نہ شرم کا باعث ہو ۔ایسی دنیا ہمیشہ حسنات کی موجب ہوتی ہے ۔ایسی دنیا کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے ۔پھر فرمایا : سمجھنا چاہیے کہ جہنم کیا ہے ۔ایک مرنے کے بعد کا جہنم ہے ۔دوسری یہ زندگی اگر خدا کے لئے نہیں تو یہ بھی جہنم ہی ہے ۔فرمایا : اللہ تعالیٰ ایسے انسان کا تکلیف سے بچانے کے لئے متولی نہیں ہوتا جس کو خدا کی پرواہ نہ ہو ۔کوئی بھی انسان مال و دولت سے دنیا کا بہشت نہیں پا سکتا ۔اطمینان اور تسلی اور تسکین ان باتوں سے نہیں ملتی ۔وہ خدا میں زندہ اور مرنے کے لئے مل سکتی ہے ۔پس یہ بے جا خواہشات کی آگ اسی جہنم کی آگ ہے جو انسان کو اقرار نہیں لینے دیتی ۔بلکہ اس کو پریشان رکھتی ہے ۔فرمایا : اس لئے میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر پوشیدہ نہ رہے کہ انسان مال و زر کی دولت کے نشہ میں ایسا غرق نہ ہو کہ خدا تعالیٰ اور بندہ میں ایک حجاب پیدا ہو جائے ۔ پھر حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں : میرے دل میں یہ بات آئی ہے کہ الحمد للہ ۔۔۔ مالک یوم الدین سے یہ ثابت ہے کہ انسان ان صفات کو اپنے اندر لے ۔ہر عالم میں غرض ہر عالم میں پھر رحمان اور رحیم پھر مالک یوم الدین ہے ۔ایاک نعبد کہتا ہے تو پھر اس عبادت میں وہی صفات کا پرتو اپنے اندر لینا چاہیے ۔فرمایا: کمال یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو جائے جب تک یہ مرتبہ نہ ملے نہ تھکے نہ ہارے ۔اس کے بعد خود ایک کشش پیدا ہو جاتا ہے جو عبادت کی طرف لے جاتا ہے ۔ اس بارہ میں زندگی کا بھروسہ نہیں حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :کسی کو کیا معلوم ہے کہ ظہر کے بعد عصر تک زندہ رہے ۔بعض دفعہ یک دفعہ ہی جان نکل جاتی ہے ۔بعض دفعہ چنگے بھلے آدمی مر جاتے ہیں ۔ایک وزیر ہوا خوری کر کے آئے ایک دو زینہ چڑھے اور چکر آیا بیٹھ گئے اور پھر دو تین زینہ پر چکر آیا اور جان نکل گئی ۔ایک اور غلام محی الدین یک دفعہ ہی مر گیا ۔موت کا کوئی وقت معلوم نہیں اس لئے اس سے بے فکر نہ ہوں ۔دین کی غم خواری بڑی چیز ہے ۔ساعت سے مراد قیامت بھی ہوگی مگر اس میں ساعت سے موت ہی مراد ہے ۔کیونکہ انقطاع تام کا وقت ہوتا ہے اور ایک عجیب زلزلہ اس پر طاری ہوتا ہے ۔گویا اندر ہی اندر ایک شکنجہ میں ہوتا ہے ۔اس لئے موت کا خیال رکھے ۔ جب یہ یاد ہوگا تو انسان نیکیاں بجا لانے کی کوشش کرتا ہے پھر بلا وجہ کے تماشوں میں نہ وقت اور نہ پیسہ ضائع کرے گا ۔اور نہ بے جا خواہشات کی تکمیل میں پیشہ ضائع کرے گا۔ پھر پاک تبدیلی پیدا کرنے میں فرماتے ہیں : پس غفلت نہ کرو ایک تبدیلی کرو ۔انسان کو نفس جھوٹی تسلی دیتا ہے ۔موت کو قریب سمجھو خدا کا وجود بر حق ہے ۔اب جیساکہ سورة فاتحہ میں تین گروہ کا ذکر ہے ۔تین کا مزہ چکھا دے گا ۔آخر والے مقدم ہونگے ۔ضالین ۔مسلمانوں کی مثال دے کر فرما رہے ہیں ۔کہ وہ پہلے ہو گئے ۔اسلام وہ تھا کہ ایک مرتد ہو جاتا ہے تو قیامت ہو جاتی تھی ۔اب ہزاروں عیسائی ہو چکے تھے ۔خود ناپاک ہوئے ہیں ۔اور پاک وجود کو گالی دی جاتی ہے ۔پھر مغضوب کا نمونہ طاعون سے دکھایا گیا ۔یہ ان لوگوں پر پڑتی ہے ۔آج کے زمانہ میں بھی طوفان زلزلے ہیں اور آفتیں ہیں یہ سب انسان سوچے تو خدا تعالیٰ کے غضب نازل ہو رہے ہیں ۔یہی چیزیں پھر خدا کی طرف لے کر آتی ہیں َپھر انعام یافتہ گروہ ہے ۔قاعدہ کی بات ہے کہ یہ کام نہ کرنے کا کہا جاتا ہے تو اس میں سے ایک اس کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔کوئی بھی قوم ایسی نہیں جس کو منع کیا گیا اور وہ سب کے سب منع ہوئے ہوں ۔قرآن کی نسبت کہا ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔غرض دعاؤں میں لگے رہو کہ انعام یافتہ گروہ میں داخل کرے ۔مستقل دعاؤں کی ضرورت ہے ایک دو دن کی دعاؤں کی نہیں ۔پھر پاک تبدیلی اور آخرت کی فکر تقوی سے پیدا ہوتی ہے ۔آپ فرماتے ہیں :تقوی والے پر خدا کی تجلی ہوتی ہے وہ خدا کے سایہ میں ہوتا ہے مگر چاہیے کہ تقوی خالص ہو شیطان کا کچھ حصہ نہ ہو ۔شرک خدا کو پسند نہیں ۔اگر کچھ حصہ خدا کا ہو تو خدا کہتا ہے سب شیطان کا ہے ۔خدا کے پیاروں کو دکھ مصلحت الہی سے آتا ہے ۔ورنہ ساری دنیا جمع ہو جائے تو پھر بھی تکلیف نہیں دے سکتی ۔وہ نمونہ ہوتے ہیں اس لئے تکلیف اٹھانے کا نمونہ بھی دکھائیں۔خدا اپنے ولی کو تکلیف نہیں دینا چاہتا ۔یہ ان کے لئے نیکی ہے کیونکہ ان کے اخلاق واضح ہوتے ہیں ۔انبیاء کی تکلیف میں خدا کی ناراضگی نہیں ہوتی بلکہ ایک شجاعت کا نمونہ قائم کرتے ہیں ۔جنگ احد میں رسول کریم ﷺ اکیلے رہ گئے اس میں بھید بھی شجاعت کا ظاہر کرنا تھا ۔جب آپ دس ہزار کے مقابل پر اکیلے کھڑے ہو گئے ۔یہ نمونہ کسی نبی نے نہیں دکھایا۔ ہم اپنی جماعت کو کہتے ہیں کہ اتنے پر خوش نہ ہو جائیں کہ ہم موٹے موٹے گناہ نہیں کرتے ۔ان میں تو مشرک بھی زنا چوری نہیں کرتے ۔تقوی کا مضمون باریک ہے اس کو حاصل کرو ۔خدا کی عظمت دل میں بیٹھاؤ ۔جس کے اعمال میں ریا کاری ہوگی وہ واپس منہ پر مارے جاتے ہیں ۔متقی ہونا مشکل ہے ۔اگر کوئی تجھ سے کہے تو نے قلم چرایا ہے تو کیوں غصہ کرتا ہے ۔تیرا پرہیز تو محض خدا کے لئے ہے ۔یہ طیش اس واسطہ ہوئے کہ تم اللہ تعالیٰ سے تعلق نہ تھا ۔فرمایا : جب تک واقعی انسان پر بہت سی موتیں نہ آجائیں وہ متقی نہیں بنتا ۔سچی رویا کے پیچھے نہ پڑا کرو بلکہ حصول تقوی کے پیچھے رہو ۔متقی کے الہامات بھی صحیح ہیں ۔اگر تقوی نہیں تو قابل اعتبار نہیں ۔کسی کے الہام کو جاننا ہے تو پھر تقوی سے پہچانو ۔انبیاء کے نمونے کو قائم رکھو ۔جتنے بھی نبی آئے سب نے تقوی کی راہ سکھائی ۔نبی کمال نبی کی امت کے کمال کو چاہتا ہے ۔رسول کریم ﷺ پر کمالات نبوت ختم ہوئے ۔جو اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہے وہ اپنی زندگی کو خارق عادت بنا لے ۔تقوی کا اعلی ترین معیار حاصل کرو ۔فرمایا دیکھو امتحان دینے والے محنت کرتے ہیں اور کمزور ہو جاتے ہیں ۔تقوی کے امتحان میں پاس ہونے کے لئے ہر تکلیف اٹھانے کے لئے تیار ہو جاؤ ۔مختصر خلاصہ ہماری تعلیم کا یہی ہے کہ انسان اپنی تمام طاقتوں کو خدا کی طرف لگا دے ۔اہل تقوی اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں ۔کسی کے غصہ سے خود مغلوب نہ ہو جاؤ ۔تکبر اور غرور غضب کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ۔فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پر غرور کریں کسی کو کم سمجھیں خدا جانتا ہے بڑا کون ہے اور جھوٹا کون ہے ۔جس کے اندر حقارت ہے ڈر ہے وہ بیج بڑھ کر ہلاکت کا باعث بن جائے ۔بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو آرام سے سنے ۔اس کی دلجوئی کرے ۔کوئی چڑ کی بات منہ پر نہ لاوے ۔جس سے دکھ پہنچے ۔خدا فرماتا ہے ۔کسی کو برے لقب سے نہ پکارو ۔یہ فعل فجار کا ہے ۔جو کسی کو چڑاتا ہے وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اس میں مبتلا نہ ہو ۔جب ایک چشمہ سے پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کس کی قسمت میں زیادہ پانی ہے ۔خدا کی نظر میں معزز زیادہ متقی ہے ۔ پھر تقوی کے بارہ میں فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے جس قدر قویٰ عطا فرمائے ہیں وہ ضائع کرنے کے لئے نہیں ان کے جائز استعمال کرنا ہی ان کی نشو و نما ہے ۔فرمایا اسی لئے قوائے رجولیت نکالنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ جائز استعمال کہا ہے ۔آنکھ بد کام کے لئے نہیں دی گئی بلکہ جائز استعمال کرو گے تو تزکیہ نفس ہوگا۔مسلسل کوشش کرنے والے ہدایت کے راستہ پر چلتے ہیں جس سے فلاح ملتی ہے ۔پس یہی فلاح یاب ہیں جو منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے ۔اس لئے شروع میں ہی تقوی کی تعلیم دے کر ایک کتاب دی جس میں تقوی کی نصائح دیںَ ہماری جماعت غم کل غموں سے بڑھ کر اپنی جان پر لگائے کہ ان میں تقوی ہے یا نہیں۔ اگر تم لوگوں کے دل پر فتح پانا چاہتے ہو تو تقوی سے کام لو ۔دوسروں کو اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھاؤ تب کامیاب ہو جاؤ گے ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔جو بھی بات دل سے نکلتی ہے وہ دل پر ضرور اثر کرتی ہے ۔مومن کی ایک بات دل سے نکلنی چاہیے اور دوسروں کی فلاح کا موجب بنتی ہے ۔پہلے دل کو عمل والا بناؤ پھر دوسروں کی اصلاح چاہو ۔عمل کے بغیر قولی طاقت کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی ۔بہت سے مولوی اپنے آپ کو نائب رسول کہہ کر واعظ کرتے ہیں تکبر غرور سے بچو ان کے اپنے کرتوت ان باتوں سے لگا لو کہ ان کی باتوں کا اثر تمہارے دل پر کس حد تک ہوتا ہے ۔پھر فرمایا : اس قسم کی عملی طاقت نہیں رکھتے ۔اگر یہ خود کرتے تو قرآن کیوں کہتا تم وہ کیوں کہتے ہو جو نہیں کرتے ۔یہ آیت بتاتی ہے کہ عمل نہ کرنے والے ہیں اور ہونگے ۔ہم سب کو پہلے اپنا جائزہ لینا چاہیے اور پھر دوسروں کی اصلاح ۔یہ نصیحت خاص طور پر عہدیداروں کو یاد رکھنی چاہیے ۔دوسروں کو تبدیلی کا کہتے ہیں مگر خود الٹ کرتے ہیں۔پھر خدا تعالیٰ کے حکم کا ثانوی حیثیت دے دیتے ہیں ۔ فرمایا : تم میری بات سنو اور خوب یاد رکھو اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عمل ساتھ نہ ہو وہ اثر انگیز نہیں ہوتی ۔اسی میں ہمارے نبی ﷺ کی کامیابی ہے ۔آپ کو جو فتح ملی اسی وجہ سے کہ آپ ﷺ کا قول وفعل مطابقت رکھتا تھا ۔پھر فرماتے ہیں : آج کل کے تعلیم یافتہ لوگوں پر ایک اور بڑی آفت پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے ۔پھر جب حیرت دان کا یا فلاسفر کا اعتراض پڑھتے ہیں تو شکوک شروع ہو جاتے ہیں ۔تب وہ عیسائی اور دہریہ بن جاتے ہیں ۔ایسی حالت میں ان کے والدین ان پر ظلم کرتے ہیں دین کا علم نہیں دیتے ۔اور شروع سے ایسا کام کرتے ہیں کہ دین نہیں سیکھتے ۔پس والدین کو بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔جماعت میں بہت لٹریچر ہے پڑھیں تو شکوک دور ہو جاتے ہیں َپھر باہم اتفاق و محبت پر کہہ چکا ہوں تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو ۔ تم وجود واحد رکھو ورنہ ہوا نکل جائے گی ۔اگر اختلاف ہو تو پھر بے نصیب رہو گے ۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرو ۔ایک شخص کی غائبانہ دعا پر فرشتہ بھی کہتا ہے کہ تیرے لئے بھی ایسا ہو ۔میں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو ۔دو ہی مسئلے لیکر آیا ہوں خدا کی توحید پکڑو اور آپس میں محبت کا نمونہ دکھاؤ ۔یاد رکھو جب تک تم میں سے ہر ایک جو خود پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند نہ کرے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ۔وہ بلا میں ہے پھر فرمایا : میرے وجود سے ایک صالح جماعت پیدا ہوگی ۔ (انشاء اللہ ) جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پاتے ان کو جماعت سے الگ کر دونگا ۔جو ایسے ہیں وہ چند روزہ مہمان ہیں ۔میں کسی کے سبب سے اپنے اوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا ۔ پس ڈرو میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا۔جو بھی کمزور ہے وہ ان دعاؤں سے حصہ نہ پا سکے گا جو حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی جماعت کے لئے کی ہیں ۔پس سب کو اپنے جائزے لیتے رہنا چاہیے ۔پھر فرمایا : قرآن کریم میں ہے کہ تیری پیروی کرنے والوں پر قیامت تک تیرے مخالف پر غلبہ دونگا۔یہ وعدہ مسیح سے تھا میں تم کو کہتا ہوں مجھے بھی انہی الفاظ میں بشارت دی ہے ۔اب سوچ لیں میرے ساتھ رہ کر وہ لوگ اس کو پا سکتے ہیں جو امارہ میں پڑھے ہوئے ہوں ۔نہیں ہر گز نہیں ۔ پس جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ اثر میری ذات تک پہنچتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کے نبی تک پہنچتا ہے ۔اگر ان باتوں کا اثر میری ہی ذات تک ہوتا تو مجھے کچھ پرواہ نہ تھی اس کا اثر رسول کریم ﷺ اور پھر خدا تعالیٰ تک جاتا ہے ۔اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتے ہو تو پھر اتنا ہی کہتا ہوں کہ یہ کامیابی اس وقت تک حاصل نہ ہوگی جب تک لوامہ سے گزر کا مطمئنہ تک نہ پہنچ جاؤ ۔پس مامور کی باتوں کو دل کے کانوں سے سنو اور ان پر عمل کرو ۔اور اقرار کے بعد انکار کرنے والے نہ بنو ۔پھر قبولیت دعا کے بارہ میں فرمایا : قبولیت شرائط کے لئے بھی چند شرائط ہوتی ہیں ۔دعا کروانے والے اور دعا کرنے والے متعلق ہوتی ہیں ۔دعا کروانے والا خدا سے ڈرے اور تقوی پر رہے ۔ایسی صورت میں دعا کے لئے دروازہ قبولیت کھلتا ہے ۔اگر خدا ناراض ہے تو پھر وہ قبولیت نہیں پاتیں۔پس ہمارے دوستو! کے لئے لازم ہے کہ وہ ہماری دعاؤں کو ضائع ہونے سے بچاویں ۔اور ان کی راہ میں روک نہ ڈالیں ۔جو ان کی حرکتوں سے پڑ سکتی ہے ۔چاہیے کہ تقوی حاصل کریں ۔تقوی کے مدارج بہت سے ہیں لیکن صدق نیت سے ابتدائی مدارج کو طے کر یں تو اعلی مدارج کو پا لیتا ہے ۔فرمایا : ہماری جماعت کو لازم ہے جہاں تک ممکن ہو ہر ایک تقوی کی راہ پر قدم مارے تاکہ قبولیت دعا کا مزہ ملے ۔صرف بیعت سے خدا راضی نہیں ہوتا یہ صرف پوست ہے مغز اس کے اندر ہے ۔بعض میں مغز نہیں رہتا تو وہ ردی کی طرح پھینک دئے جاتے ہیں ۔اگر بیعت کرنے والے کے اندر تقوی نہیں تو ڈرنا چاہیے ورنہ وہ ایک دفعہ پھینک دیا جائے گا۔ جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان محبت اطاعت مریدی اسلام کا دعوی سچا نہیں ہے ۔یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک مغز کے سوا چھلکا کی کچھ قیمت نہیں ۔صرف دعوی پر کوئی فائدہ نہیں جب تک انسان اپنے آپ پر بہت سی موتیں وارد نہ کرے وہ انسانیت کے اصل مقصد کو نہیں پا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے ہم اپنی زندگیوں کو حضرت مسیح موعود ؑ کے مطابق ڈھالنے والے ہوں ہمارے قدم نیکیوں کی طرف بڑھنے والے ہوں آپ ؑ کی دعاؤں کو ضائع کرنے والے نہ ہوں بلکہ دعاؤں کے ہمیشہ وارث بنے اس دعا کے ساتھ آپ سب کو نئے سال کی مبارک باد دیتا ہوں اللہ تعالیٰ اس سال کو ہمارے لئے ذاتی طور پر بھی اور مجموعی طور پر بھی بے شمار برکات کا وارث بنائے ۔ آمین

No comments:

Post a Comment