Friday, 25 December 2015

Love for All Hatred for None


Love for All Hatred for None


Love for All Hatred for None


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ 25 دسمبر 2015 بیت الفتوح یوکے(مرتب کردہ یاسر احمد ناصر مربی سلسلہ ) تشہد و سورة الحمدللہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : یہ دن قادیان میں جلسہ سالانہ کے دن ہیں کل سے جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے اسی طرح آج آسٹریلیا کا جلسہ ہو رہا ہے اور بعض ملکوں میں ہو رہے ہونگے اور ہونے والے ہونگے ۔اللہ تعالیٰ ان تمام جلسوں کو بابرکت فرمائے اور اشرار کے شر سے محفوط رکھے ۔آمین ۔قادیان کے جلسہ کی اس وجہ سے اہمیت زیادہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی بستی ہے اور یہی پہلا جلسہ اذن الہی سے ہوا۔حضرت مصلح موعود ؓ نے اپنے خطبات اور خطابات کے میں اس زمانہ سے بھی آگاہی دی ہے جو جماعت کی ابتداء تھی ۔جہاں جلسوں کا ذکر ہے وہاں الہامات کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ کس طرح الہامات کو پورا ہوتا دکھایا یا دکھا رہا ہے ۔بعض الہامات آئندہ زمانہ کے بارہ میں ہیں یا ایک دفعہ پورے ہو چکے اور آئندہ بھی ہونگے ۔حضرت مصلح موعود ؓ ایک ابتدائی جلسہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔1936 میں آپ فرما رہے ہیں کہ 40 سال قبل مدرسہ احمدیہ کی جگہ ایک فصیل تھی جو ٹوٹی پھوٹی تھی جو قادیان کو گھیرے ہوئے تھی ۔وہ حفاظت کے لئے تھی اور خاصی چوڑی تھی ایک گڈا اس پر چل سکتا تھا ۔جب اس کو تڑوا کر نیلام کیا تو اس کا کچھ ٹکرا مہمان خانہ بنانے کے لئے لے لیا ۔کہتے ہیں میں نہیں کہہ سکتا وہ 93 تھا 94 یا 95 تھا یہی دسمبر کے دن تھے یہی موسم تھا یہی مہینہ تھا۔کچھ لوگ جو احمدی نہ تھے ۔نام احمدی 1901 میں رکھا تھا وہی لوگ یہی مقاصد لے کر قادیان جمع ہوئے ۔کہتے ہیں کہ پتہ نہیں کاروائی کا کام کہاں ہوا تھا ۔میں اس وقت اس اجتماع کی اہمیت کو نہیں سمجھتا تھا ۔میں ان کے درمیان دوڑتا پھرتا تھا اور کھیلتا تھا۔کچھ لوگ جمع تھے اور حضور ؑ کے گرد جمع تھے دری ایک تھی اور کچھ لوگ بیٹھے تھے ڈیڑھ سو ہونگے یا دو سو ۔بچے ملا کر اڑھائی سو ہونگے ۔کہتے ہیں میں نہیں کہہ سکتا کیوں مگر میں اتنا جانتا ہوں وہ دری تین جگہ سے بدلی گئی ۔کہتے ہیں کہ بچپن کی عمر کے لحاظ سے کہ دری کی جگہ بدلی گئی ۔آج جو لوگ قادیان میں جلسہ کی غرض سے ہیں ۔وہ شائد اس وقت کی حالت کا اندازہ نہ کر سکتے ہوں ۔اب وسیع جلسہ گاہ میسر ہے جو پکی چار دیواری سے گھیرا گیا ہے ۔1936 کے دور میں بھی مزید وسیع انتظام ہوتے گئے ۔قادیان پر بعد میں ایسا دور بھی آیا جب صرف دارالمسیح اور چند گھروں تک احمدی محدود ہو گئے ۔چند سو کے سوا سب کو ہجرت کرنی پڑی ۔احمدی جو تھے چند ایک وہ بھی بہت کمزور تھے ۔لیکن آج پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان میں وسعت پیدا ہو رہی ہے ۔جانے والے آج صرف اس وسعت کو دیکھ رہے ہیں ۔جو باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں ۔تاریخ میں نظر ڈالیں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش نظر آتی ہے ۔آج ربوہ کے رہنے والے بھی ان دنوں بے چین ہونگے ۔کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے ۔انشاء اللہ تعالیٰ وہاں بھی حالات بدلیں گے اور وہاں بھی رونقیں قائم ہونگی ۔پاکستان میں رہنے والوں کو ربوہ میں رہنے والوں کو دعاؤں کی طرف توجہ دینا ہوگی ۔خدا کہتا ہے کمزوری نہ دکھاؤ اور غم نہ کرو جب کہ یقینا تم ہی غالب آنے والے ہو ۔ حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ فرماتے ہیں : پس ایمان میں زیادتی اور دعاؤں پر زور اللہ تعالیٰ کےفضلوں کو جذب کر کے حالات پھر بدلیں گے ۔حضرت مصلح موعود ؓ مزید اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ ان کو اٹھایا جاتا تھا کہ اس نیت سے اور اس ارادہ سے کہ اسلام کمزور ہو گیا ہے وہ ایک ہی نور جس کے بغیر روشنی نہیں ہو سکتی ۔اس کو بجھانے کے لئے پورا زور لگا رہے ہیں ۔اس ایک ارب اور 25 کڑور کے زمانہ میں جو 1936 کی آبادی ہوگی ۔250 لوگ جو بہت غریب تھے وہ اس ارادہ سے جمع تھے کہ محمد ﷺ کا جھنڈا جسے دشمن نیچے کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس کو نیچا نہیں ہونے دیں گے بلکہ اس کو پکڑ کر سیدھا رکھیں گے ۔جن کے چہروں پر وہی کچھ لکھا تھا جو بدری صحابہ ؓ کے چہروں پر تھا ۔جیسا کہ بدر کے صحابہ نے کہا بیشک ہم کمزور ہیں اور دشمن طاقتور ۔مگر وہ آپ ﷺ تک نہیں پہنچ سکتا کہ جب تک ہماری لاشوں سے نہ گزرے ۔ان کے چہرہ بتا رہے تھے کہ وہ زندہ موتیں ہیں ۔جو دین کے قیام کے لئے ایک آخری جدو جہد کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں ۔دیکھنے والے ان پر تمسخر کرتے تھے کہ کیا کام کریں گے ۔وہ جگہ صرف اتنی تھی جتنی سٹیج کے لئے ہوتی ہے اتنی ہی تھی ۔فرماتے ہیں : لوگ کہتے ہیں کہ جب یوسفؑ مصر کے بازار میں بکنے کے لئے آئے ایک بڑھیا بھی کچھ پیسے لئے خریدنے کے لئے نکلی ۔دنیا کے لوگ اس واقعہ کو سنتے ہیں اور ہستے ہیں اور روحانی لوگ یہ سن کر روتے ہیں ۔جہاں کسی چیز کی قدر ہوتی ہے وہاں ہنسی کی پروا نہیں ہوتی ۔ پس اس وقت حضرت مصلح موعود ؓ نے اپنے سامنے بیٹھے چند ہزار لوگوں کو کہا تھا کہ ان دو اڑھائی سو کی آہوں کے نیتجہ کو تم دیکھ رہے ہو ۔یعنی اس میدان میں ان لوگوں کی آہیں تھیں کہ اب تم وسیع میدان میں ہو ۔آج جیسا کہ بتایا کہ قادیان کی جلسہ گاہ وسیع ہو چکی ہے ۔ ایک وسیع میدان ہے ۔تمام سہولتیں میسر ہیں ۔اب کئی زبانوں میں کئی آوازیں پہنچائی جاتی ہیں ۔اب بھی تمام لوگ اپنے آپ میں وہ ایمان اور اخلاص پیدا کریں جو ان دو سو لوگوں میں تھا ۔جس کی مثال حضرت مصلح موعود ؓ نے دی ہے اسی طرح آسٹریلیا میں اور افریقہ میں جلسہ ہو رہا ہے اس نیت سے جمع ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھے ہیں جس طرح انہوں نے آہیں نکالیں تھیں آپ بھی ایسی ہی آہیں نکالیں ۔ہماری تعداد اب بھی بہت معمولی ہے مگر ہم نے وہی کام کرنے ہیں جو ہمارے آباؤ اجداد نے کی ہے ۔ہمارا مقصد بہت بڑا ہے جس کو ہم نے حاصل کرنا ہے ۔یہ تمام لوگ جو جلسہ میں شامل ہیں ان دنوں بہت دعائیں کریں ۔حضرت مصلح موعود ؓ نے جو یہ بات کی کہ ایسے نشان ہزاروں ہیں ۔ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ یاتیک من کل فج عمیق ۔یا توک من کل فج عمیق ۔دور دور سے لوگ آئیں گے اور دور دور سے تحائف تمہارے لئے لائیں گے ۔جب یہ الہام ہوا اس کو دیکھنے والے اب بھی موجود ہیں ۔اب بھی نظارہ یاد ہے مدرسہ کے قریب ڈھاب تھی ۔مدرسہ کی جگہ لوگ دن کو نہیں جاتے تھے کہ آسیب زدہ ہے ۔اکیلا کبھی نہ جاتا تھا ۔بلکہ دو تین مل کر جاتے تھے ۔بلکہ ان کا خیال تھا یہاں جانے سے جن چڑ جاتا تھا ۔یہ ویران جگہ تھی ۔پھر یہ کہتے ہیں کہ میرے تجربہ سے باہر تھا ۔قادیان میں دو تین روپیہ کا آٹا بھی نہ ملتا تھا ۔کہتے ہیں یہ تو ہم کو بھی یاد ہے جب کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو حضور ؑ کسی کو لاہور یا امرتسر بھیجتے ۔اور منگواتے تھے ۔لوگ کوئی نہ آتے تھے ۔ فرمایا: مجھے وہ دن بھی یاد ہیں میں چھوٹا سا تھا برسات کے موسم میں ایک گھڑا تھا مجھے اٹھا کر آگے کیا گیا ۔کبھی کوئی اٹھا لیتا کوئی کبھی ۔کوئی ترقی نہ تھی ۔مگر ایک رنگ میں ترقی کا زمانہ تھا ۔اس وقت حافظ حامد علی آ چکے تھے ۔جب کوئی نہ جانتا تھا تب یہ وعدہ تھا دور دور سے لوگ آئیں گے اور دور دور سے تحائف لائیں گے ۔اے وہ شخص جو کو اس کے محلہ کے لوگ بھی نہیں جانتے ۔جس کی گمنامی کی یہ حالت تھی کہ مرزا غلام احمد کا ایک ہی بیٹا ہے ۔میں تجھ جیسا شخص کو عزت دونگا ۔عزت چل کر پاس آئے گی ۔ ۔اگر ابو جہل نہ ہوتا تو قرآن اتنا کیسے اترتا ۔آج بھی نظارہ ہم دیکھتے ہیں دنیا کے ملکوں سے لوگ وہاں ہیں نئی عمارتیں بن رہی ہیں ۔پھر جلسہ سالانہ کی مہمان نوازی کےحوالہ سے ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔آخری جلسہ جو حضرت مسیح موعود ؑ کا تھا کل 700 آدمی تھا ۔انتظام بہت خراب ہوا۔رات کے تین بجے تک کھانا نہ مل سکا۔الہام ہوا اے نبی بھوکے اور پریشان حال کو کھانا کھلاؤ ۔صبح معلوم ہوا رات تین بجے تک کھانا نہ ملا ۔نئے سرے سے دیگیں چڑھائی گئی اور کھانا کھلایا گیا ۔ان 700 آدمیوں کا یہ حال تھا کہ سیر کے لئے بھی ساتھ ہوتے تھے ۔روحانی نظاروں میں یہ نظارہ بھی عجیب تھا ۔حضرت صاحب ایک قدم چلتے تو ٹھوکر کھا لیتے ۔اور جوتی اتر جاتی ۔یہ حالت ہوتی تھی سیر کے وقت جاتے ہوئے ۔ایک ذمیندار دوست نے کہا او تو مسیح موعود دا دست پنجہ لے لیا ۔اتھے دست پنجہ لین دا کیڑا ویلا ۔یعنی بہت رش ہے مصافحہ بھی نہیں ہو رہا ۔اس پر جو عاشق ذمیندار تھا ۔کہنے لگا تجھے پھر یہ موقع کب نصیب ہو گا ۔بیشک تیرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں مصافحہ کر جا۔ اور آ ج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید کے نظارے کیسے ہیں ہزاروں لوگ جمع ہیں اور مہمان نوازی بھی ہو رہی ہے ۔پھر اس جلسہ کے وقت حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ بھی فرمایا تھا ۔کہ بہت وسعت پیدا ہو چکی ہے کہ لگتا ہے کہ اب ہمارا کام ختم ہو گیا ۔حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا جتنے لوگ آخری سال جمع ہوا ہے ۔بار بار فرماتے تھے کہ جس کام کے لئے بھیجا ہے وہ کام ہو گیا ہے ۔اب تو جمعہ کے دن بھی ہزاروں لوگ ہوتے ہیں ۔یہ اللہ تعالیٰ کی تائید کا عظیم الشان نشان ہے ۔جن جماعتوں کے ساتھ یہ تائیدہوتی ہے وہ اس طرح بڑھتی ہے ۔اور دشمن کی دشمنی کے باوجود جماعت کو بڑھاتا چلا جاتا ہے اور ترقی دیتا چلا جاتا ہے ۔یہ چیز بہت خوشی کا موجب ہے مگر ساتھ ہی ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتی ہے ۔جس کے لئے ہم نے حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت کی تھی ۔اب برصغیر میں ہی نہیں بلکہ آج 200 سے زیادہ ملکوں میں جماعت بڑھ رہی ہے ۔حاسدوں کا حسد بڑھ رہا ہے ۔اب دو دن پہلے گرگستان میں ایک مقامی احمدی کو شہید کر دیا گیا ۔اب کچھ دیر پہلے بنگلہ دیش میں ہماری مسجد میں بھی دھماکہ ہوا ۔غالبا خود کش دھماکہ ہوا ہے ۔اللہ تعالیٰ ان سب کو جلد شفا دے چار کے قریب لوگ زخمی ہوئے ہیں ۔یہ حسد بڑھ رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے غالب آنا ہے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک الہام ہے جو ذو معنی ہے ۔ہم اس کے خاص معنی نہیں کر سکتے ۔’’لنگر اٹھا دو ‘‘ اگر کشتی کا لنگر لیا جائے تو معنی باہر نکل جاؤ اور پیغام ہر جگہ پھیلا دو ۔دوسرے معنی کئے جائیں تو یہ لوگ بہت بڑھ گئے ہیں کہ آنے والوں کا اتنا رش ہو گیا ہے کہ کہا جائے کہ مہمانوں کو ٹھہرانا انسانی طاقت میں ہے تو یہی ہدایت ہے کہ وسیع مکانک ۔اور جہاں جہاں بھی یہ کر سکتی ہیں وہاں رہائش کے لئے عارضی اور مستقل انتظام کرتے رہنا چاہیے ۔اب نئے نئے گیسٹ ہاؤس بن رہے ہیں اور مہمانوں کو جس طرح کی سہولت کی جا سکتی ہے کی جاتی ہے ۔بہرحال گھر کی طرح کی تو نہیں۔ مہمانوں کو بھی چاہیے کہ صرف سہولتوں کی طرف نہ دیکھیں بلکہ جو مقصد ہے وہ پورا کریں ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے ایک اور الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : کہ جماعت کے وہ تمام دوست جو آ سکتے ہیں وہ تمام جمع ہویں ۔اب بھی سفر کے وسائل ہمارے ایسے نہیں ہیں جو بہت مالدار ہوں ۔جو دور دراز کے ممالک سے جلسہ سالانہ کے ایام میں قادیان پہنچ سکیں ۔لیکن اگر ایسے لوگ ہماری جماعت میں شامل ہوں تو ان دور دراز کے ممالک کے لئے جہاں سفر میسر ہے یہاں پہنچنا ممکن ہے ۔آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے ممالک سے لوگ قادیان پہنچتے ہیں ۔بہت سے لوگ ہوتے ہیں کہ ترقی کے شروع ہونے پر سست ہو جاتے ہیں ۔ایسے لوگوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی جلسہ پر آ سکتا ہے مگر سستی کرتا تو اس کا اثر اس کی اولاد پر پڑتا ہے ۔جو ایک جلسہ کے لئے سال میں آ جاتے ہیں ان میں احمدیت قائم رہتی ہے ۔بچہ کے لئے بھی یہ اجتماع ایک اچھا نظارہ بن جاتا ہے ۔اپنے ملکی جلسون میں بھی ضرور شامل ہونا چاہیے ۔جو باپ آتا ہے وہ اپنی اولاد کے دل میں بھی یہ لو لگا دیتا ہے ۔پس ان ایام میں کسی ایسے بہانہ کی وجہ سے ترک کر دینا جو ختم کیا جا سکتا وہ اپنی اولاد پر بھی ظلم ہے ۔ہندوستان کے احمدیوں کو خاص طور پر کوشش کر کے قادیان آنا چاہیے ۔لیکن کسی زمانہ میں بڑے بڑے مالدار ہماری جماعت میں شامل ہو جائیں تو دنیا کے ہر گوشہ سے لوگ اس بستی میں آئیں گے ۔آج سے 60 سال قبل بہت مشکل تھا کہ دنیا کے ممالک سے لوگ نہیں آ سکتے ۔اب اگر کسی وقت امریکہ میں لوگ مالدار ہوں تو وہ اپنی عمر میں ایک دو دفعہ قادیان کے لئے بھی آئیں ۔الزام لگایا جاتا ہے کہ حج پر نہیں جاتے ۔یہاں فرمایا حج کے علاوہ قادیان میں بھی جائیں ۔کیونکہ قادیان میں علمی برکات میسر آتی ہیں ۔بستی کی اپنی ایک روحانی کیفیت ہے ۔جو جا کر ہی احساس ہوتا ہے ۔آپ ؓ نے فرمایا میں تو یقین رکھتا ہوں کہ دور دراز سے لوگ یہاں آئیں گے ۔ایک رویا تھا کہ ہوا میں تیر رہے ہیں عیسی ؑ پانی پر چلتے تھے میں ہوا میں تیر رہا ہوں میرے خدا کا فضل مجھ پر بہت بڑھ کر ہے ۔اس رویا سے مراد ہے وقت آنے والا ہے کہ ہوائی جہاز سے بھی لوگ آیا کریں گے ۔یہ خبر بھی ملا کرے گی کہ فلاں ملک سے اتنے ہوائی جہازآئے ہیں ۔اب یہ نظارہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ بعض ایسے مقامی لوگ ہیں جن کا تصور نہ تھا ۔یہ بھی بعید نہیں کہ کسی وقت سپیشل طیارہ جلسہ کے لئے روانہ ہوں ۔مکہ اور مدینہ کے بعد قادیان کو مرکز بنایا ہے ۔آپ اسلام کے بانی اور آقا اور استاد ہیں ۔مکہ اور مدینہ کے بعد جس مقام کو دنیا کا مرکز کہا ہے وہ بستی قادیان ہے ۔آج کل مکہ اور مدینہ جو کسی وقت تبلیغی مرکز تھے آج یہ فرض بھلائے ہوئے ہے ۔یہ حالت ہمیشہ نہیں رہے گی ۔جب احمدیت وہاں پر قائم کی جائے گی تو ہم یہ دن دوبارہ دیکھیں گے ۔ ایک نصیحت ہے جو قابل غور ہے جلسہ میں شامل ہونے والون کے لئے ۔حضور ؓ فرما رہے ہیں : ہر خوشی کے ساتھ تکلیف بھی ہوتی ہے جہان پھول ہوں وہاں کانٹے ہیں ۔ترقی کے ساتھ حسد اور اقبال کے ساتھ زوال ہے ۔اچھی چیز میں راہ میں مخالف طاقتیں بھی ہوتی ہیں ۔اصل بات ہے کہ کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا جب تک مصائب نہ برداشت کرے یہی وجہ ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کو تکلیف اٹھانی پڑتی ہے ۔ابتلاء میں کچے ایمان والے مرتد ہو جاتے ہیںٰ ۔فرمایا : مجھے یاد ہے ایک دفعہ پشاور سے مہمان آیا ۔اس زمانہ میں مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھتے تھے اور مہمان ملتے تھے ۔مفتی محمد صادق صاحب کی روایت ہے جلسہ کے دن میں حضور ؑ کے گرد بہت لوگ تھے ۔ایک شخص نے مصافحہ کیا اور ساتھی سے پوچھا تم نے مصافحہ کیا کے نہیں ۔تم مصافحہ کرو ۔نبی کو دیکھ کر جوش وسیع ہوتا ہے ۔آپ ؑ کے قریب بیٹھنے کے لئے دوڑ پڑتے تھے ۔ایک شخص کے مقدر میں ابتلاء تھا اس کو خیال نہ آیا اس کو سنتیں پڑھنی شروع کی کہ لمبی کر دیں مگر جب انتظار کرنے والوں نے قریب کی جگہ کو بڑھ کر دیکھا تو وہ حضور ؑ کے پاس جا بیٹھے اور کسی کی کونی اس کو لگی اور سخت ناراض ہوا اور کہنے لگا کہ اچھا نبی اور مسیح موعود ؑ اس کی مجلس کے لوگ نماز پڑھنے والوں کو ٹھوکر مارتے ہیں اور مرتد ہو کر چلا گیا ۔اس کی مثال ایسی ہو گئی کہ جب روشنی آئے تو نور چلا جاتا ہے ۔قادیان آنے والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر تکلیف پہنچے تو ٹھوکر نہ کھا جائیں ۔اس تکلیف کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔مہمان نوازی کرنے والے پوری کوشش کرتے ہیں مگر پھر بھی کمیاں رہ جاتی ہیں ۔ اگر کوئی تکلیف پہنچے تو خوشی سے برداشت کرلیں ۔ٹھوکر کا باعث نہ بنائیں ۔اللہ تعالیٰ قادیان کا جلسہ بھی اور باقی بھی برکتوں سے یہ دن گزارے اور ہر جلسہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا ہو اور سب شاملین حضرت مسیح موعود ؑ کی دعاؤں کے وارث بنے ۔خود بھی دعائیں کریں ۔ گرگستان میں ایک احمدی کو جن کو یونس عبد الجلیل صاحب تھا 22 دسمبر کو 8 بجکر 50 منٹ پر ایک گاؤں میں آپ کو دو افراد نے فائرنگ کی اور موصوف شہید ہو گئے ۔اپنے گھر کے باہر یونس صاحب کسی ہمسایہ کے ساتھ تھی 12 گولیاں چلائی 7 جسم کے آر پار ہو گئے ۔صرف یونس صاحب پر فائرنگ ہوئی ۔ان کی وفات ہو گئی ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ان کے رشتہ داروں نے کسی جاننے والے سے ہی جنازہ پڑھایا ۔مولوی بھی شریف تھے یہ کہا کہ موت نہایت ظالمانہ طریق پر ہوئی ہے اس طرح کسی کو قتل کرنا ظالمانہ ہے ۔احمدیوں نے نماز جنازہ غائب ادا کیا اور تدفین بھی ہو گئی ۔کرائم والے وہ تفتیش کر رہے ہیں جماعت کے بعض افراد کو اپنے دفتر لے گئے اور ان کی معلومات دی گئی اور وہ یہ سن کر بہت حیران ہوئے انہوں نے وعدہ کیا کہ ہم اس حقیقت کو سامنے لانے کے لئے کوشش کریں گے ۔دو قاتلوں کو پکڑ لیا ۔ان کا بھی جڑ سیریہ سے جا کر ملتی ہے انہوں نے بتایا کہ سیریہ کے چار افراد ہیں جن کو تم نے قتل کرنا ہے ۔پہلے حملہ ہوا ہے مردہ سمجھ کر چلے گئے تھے یہاں ان کو شہید کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے ۔بہرحال پولیس پکڑنے کی کوشش کر رہی ہے اللہ کرے کہ تمام کیفرکردار تک پہنچیں ۔مقامی احمدیوں کا رد رعمل ہے لکھ کر بھیجا ہے کاشگر جماعت کے افراد غمگین بھی ہیں اور ہم اس شہادت کے بعد بھی نبی کریم ﷺ کے غلام کے پیغام کو پھیلاتے چلے جائیں گے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مضبوط ایمان کے لوگ ہیں 1978 میں پیدا ہوئے 2008 میں بیعت کی ۔اور مخالفت بھی ہوئی ۔بیعت کے بعد بہت تبدیلی آئی جب بھی دین کی کوئی نئی بات سیکھتے بہت خوش ہوتے ۔شہادت کے وقت جنرل سیکرٹری کی خدمت کر رہے تھے ۔اہلیہ اور تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ۔سوگوار چھوڑے ہیں ۔ہمارے مبلغ وہاں رہ چکے ہیں وہ لکھتے ہیں یونس صاحب اکیلے احمدی تھے بعد میں اہلیہ نے بیعت کر لی بہت پیارے اور فدائی احمدی تھے ۔ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے دین سیکھنے کا بہت شوق تھا نماز خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے ۔جماعتی نمائندگان کا بہت احترام کرتے تھے ۔روس کی زمین میں یہ اسلام اور احمدیت کی راہ میں خون پیش کرنے والے پہلے شہید ہیں ۔ان کے خون کا قطرہ بیشمار نیک فطر ت اور شہید لوگوں کو جماعت میں شامل کرے ۔اور اللہ تعالیٰ ان پر بے شمار فضل فرمائے ۔نماز جنازہ غائب نماز کے بعد پڑھاؤنگا۔

Friday, 18 December 2015

Love for All Hatred for None


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ 18 دسمبر 2015 بیت الفتوح یوکے(مرتب کردہ یاسر احمد ناصر مربی سلسلہ ) تشہد و سورة الحمدللہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : حضرت مسیح موعود ؑ نے جب دعوی مسیح موعود و مہدی موعود کیا تو تب سے آج تک بہت سے اعتراضات لگا رہے ہیں ۔یہ ان کی عادت ہے اور وہ کرتے رہیں گے ۔اس وجہ سے وہ عامة المسلمین کو گمراہ کر نے کی کوشش کرتے رہیں گے ۔سب سے بڑا الزام جو ہے وہ یہ ہے کہ نعوذباللہ آپ ؑ اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ سے بڑا سمجھتے ہیں ۔یہ نام نہاد علماء نعوذباللہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضور ؑ سے نبی کریم ﷺ کے بارہ میں نعوذباللہ کچھ ایسے الفاظ کہے ہیں جن سے توہین ہوتی ہے اور یہی الزام افراد جماعت پر بھی لگایا جاتا ہے ۔یہ ہم مسیح موعود ؑ کو نبی کریم ﷺ سے نعوذباللہ بڑا سمجھتے ہیں ۔جن سعید فطرت لوگوں نے جب بھی جماعت کا لٹریچر پڑھا ان کو فوری طور پر یہ بات سمجھ آ گئی کہ یہ نام نہاد اور فتنہ گر ملاں نے فتنہ کی غرض سے یہ الزامات لگائے ہیں ۔ اس وقت آپ ؑ کے بعض حوالے پیش کرونگا ۔کہ آپ ؑ نے آنحضرت ﷺ کے مقام کو کیا سمجھا ہے ۔کچھ حوالے پیش کرونگا ۔جب آپ ؑ نے براہین احمدیہ تصنیف فرمائی اور جو آخری کتاب وفات سے قبل تصنیف فرمائی ۔اس کے حوالے پیش کرونگا ۔جس میں آنحضرت ﷺ کے مقام و مرتبہ کے بارہ میں پیش گئے ۔ براہین احمدیہ 1880 سے 1884 کے دوران تصنیف فرمائی ۔اس میں آپ فرماتے ہیں ۔کہ اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد ﷺ جو اعلی و افضل سب نبیوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں ۔جن کی پیروی سے ہدایت ملتی ہے ۔اور قرآن کریم کتاب ہے جس سے انسان جہل کے حجابوں سے نجات پا کر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے ۔براہین احمدیہ میں ہی فرماتے ہیں ۔اور یہ عاجز بھی اس عظیم الشان نبی کے احقر خادموں میں سے ہے ۔ پھر 1886 میں سرمہ چشمہ آریہ میں نبی کریم ﷺ کا مقام بتاتے ہیں کہ غرض ’’ وحی الہی ایسا آئینہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کا چہرہ نظر آتا ہے ۔چونکہ آنحضرت ﷺ اپنی پاک باطنی اور انشراح صدری اور عشق میں سب انبیاء سے بڑھ کر اعلی و اکمل اعلی و اجلی و اصفی تھے اس لئے خدا نے ان کو عطر کمالات خاصہ سب سے زیادہ حصہ دیا ۔ اور سب سے پاک تر معصوم تر روشن تر سینہ اسی لائق تھا کہ ان پر ایسی وحی ہو جو سب سے اکمل و اتم ہو کر صفات الہیہ کے دکھانے کے لئے ایک صاف شفاف کشادہ آئینہ ہو پھر 1891 میں توضیع مرام میں فرماتے ہیں۔وحی الہی کی اعلی درجہ کی کیفیت ایک ہی انسان کو ملی ہے جو انسان کامل ہے جس پر سلسلہ انسانیہ ختم ہو گیا اور وہ درحقیقت پیدائش الہی کا آخری نقطہ ہے ۔ادنی سے اعلی تک سلسلہ پیدائش پہنچایا ہے اور جس کا اعلی درجہ محمد ﷺ ہیں ۔جس کا معنی ہیں نہایت تعریف کیا گیا ۔وہ مقام اعلی ہے کہ میں اور مسیح اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے ۔ پھر 1892 یا 1893 کی تصنیف ہے آئینہ کمالات اسلام ۔میں آپ مقام نبی کریم ﷺ کے بارہ میں فرماتے ہین ۔وہ اعلی درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو دیا۔۔۔۔۔غر ض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا یعنی انسان کامل میں تھا جس کے اعلی و ارفع فرد سید المولی اور سید الانبیاء محمد ﷺ ہیں ۔سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب ان کو بھی دیا گیا جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں دیا گیا۔اللہ تعالیٰ کی امانت واپس کرنا کیا ہے کہ اپنی زندگی اس کے دین کی اشاعت کے لئے وقف کر دی پس ہمارے سید ہمارے مولی ہمارے ہادی صادق مصدوق محمد رسول اللہ ﷺ نے اس امانت کا احسن حق ادا کیا ۔اول سے آخر تک کوئی ایسا انسان نہیں جو رسول کریم ﷺ جیسا فنا فی اللہ ہو ۔ 1894 نور حق میں آپ فرماتے ہیں : خوشخبری ہو ان کے لئے جو دین کی خدمت کے لئے کھڑے ہوئے ۔اور ربانی رضا کو پایا ۔درود اور سلام اس کے نبیوں کے سردار پر یعنی محمد ﷺ پر ہے ۔پھر جلد 8 میں ہی اتمام الحجہ میں آپ نے فرمایا وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا ۔جس کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی جس کے آنے سے ایک عالم زند ہ ہوگیا وہ کامل نبی محمد ﷺ ہیں اے اللہ تو اس پیارے نبی پر وہ درود بھیج جو ابتدائے عالم سے تو نے کسی نبی پر نہ بھیجا ہو ۔اگر یہ عظیم نبی نہ آتا تو باقیوں نبیوں پر سچائی کی دلیل نہ ہوتی ۔یہ اس نبی ﷺ کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے ۔ پھر 1895 میں آریہ دھرم میں فرماتے ہیں : ہمارے مذہبی مخالف بے اثر روایات پر بھروسہ کر کے ہمارا دل کھاتے ہیں اور ایسی باتوں سے ہمارے نبی ﷺ کی ہتک کرتے ہیں اور اس سے زیادہ دل دکھانے کا کیا موجب ہوگا کہ چند بے بنیاد روایات پر زنا کا الزام لگانا چاہتے ہیں ۔ہم اس کو خاتم النبوت جانتے ہیں 1896 سراج منیر میں فرماتے ہیں ۔ہم جب انصاف سے دیکھتے ہیں کہ تمام سلسلہ نبوت سے جوان نبی صرف ایک جوان نبی ہے جو رسولوں کا سرتاج ہے جس کا نام محمد مصطفی ﷺ ہے ۔جس کے زیر سایہ دس دن میں ہزاروں برس کی روشنی ملتی ہے ۔ 1898 کی تصنیف کتاب البریہ میں فرماتے ہیں : نبی کریم ﷺ کے معجزات دو قسم کے ہیں ایک آپ ﷺ کے ہاتھ سے آئے اور وہ تین ہزار کے ہیں ۔دوسرے وہ معجزات ہیں جو آپ ﷺ کے وجود سے ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں جن کی تعداد لاکھوں تک ہے ۔چنانچہ اس زمانہ میں اس عاجز کے ذریعہ سے یہ نشان دکھا رہا ہے ۔خدا تعالیٰ کا سب سے بڑا نبی سب سے زیادہ پیارا جناب نبی کریم ﷺ ہیں ۔دوسرے نبیوں کی امت تاریکی میں ہے اور یہ امت ہمیشہ تازہ بتازہ نشان پاتی ہے ۔لہذا ہمارے منہ سے گواہی نکلتی ہے سچ مذہب اسلام ہے ۔اگر قرآن شریف گواہی نہ دیتا تو ہمارے لئے ممکن نہ تھا کہ ان کو سچا نہ سمجھتے کیونکہ جب کسی مذہب میں صرف قصے اور کہانیاں رہ جاتی ہیں تو پھر اس کے بانی کی سچائی بھی ثابت نہیں ہو سکتی ۔لیکن ہمارے نبی کریم ﷺ کے معجزات صرف قصوں تک نہیں بلکہ ہم ان کی پیروی کر کے حق الیقین تک پہنچ جاتے ہیں ۔سچا کراماتی وہی ہے جس کی کرامات کا دریا کبھی خشک نہ ہو ۔وہ شخص ہمارے نبی کریم ﷺ ہیں خدا نے ان کے دریا کی کرامات ہمیشہ جاری رکھی اور اس زمانہ میں ہم کو بھیج کر صداقت کا ثبوت دیا ۔یہ سب برکات ہمارے نبی ﷺ کی ہیں ۔ پھر 1900 میں رسالہ اربعین نمبر 1 میں۔۔۔۔۔ پھر 1902 میں کشتی نوح میں فرماتے ہیں نوع انسان کے لئے کوئی کتاب نہیں مگر قرآن رو انسان کے لئے کوئی نبی نہیں مگر محمد رسول اللہ ﷺ سو تم سچی محبت اس نبی کے ساتھ رکھو اور کسی کو ان پر بڑھائی نہ دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ ۔آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے ۔کسی نبی کے لئے ہمیشہ زندہ رہنا ممکن نہ تھا اور یہ نبی زندہ ہے 1902 نسیم دعوت میں آپ فرماتے ہیں : اس کامل سچے خدا کو ہماری روح کا ذرہ ذرہ سجدہ کرتا ہے ۔جس سے ہر ایک روح ظہور پذیر ہوئی ہے ۔جس کے علم میں سب کچھ ہے ۔اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اس پاک نبی محمد ﷺ پر نازل ہوں جس کے ذریعہ وہ زندہ خدا پایا ۔جو کلام کر کے آپ اپنی ہستی کا ثبوت دیتا ہے ۔سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھایا ۔ 1903 کی تصنیف لیکچر سیالکوٹ میں فرمایا : غرض یہ تمام بگاڑ مذہب میں پیدا ہو گئے جو ذکر کے قابل نہیں ۔یہ تمام اسلام کی ظہور کی وجہ سے تھی ۔ایک عقلمند کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اسلام سے قبل روحانیت کھو کر مذہب بگڑ گیا تھا ۔ہمارے نبی کریم ﷺ سچائی کو لیکر آئے اور اس میں کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیا کو تاریکی میں پایا اور وہ پھر تمام تاریکی نور میں بدل گئی ۔اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ اعلی مراتب کو پہنچ گئے ۔آپ کا دنیا میں آنا اس وقت تھا جب لاکھوں ہدایت سے دور تھے اور پھر آپ نے ان کو نور کی روشنی دی اور جانوروں کو انسان بنایا ۔پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایا ۔پھر ان سے با خدا انسان بنایا ۔اور سچے خدا کے ساتھ ان کا تعلق پیدا کر دیا ۔وہ بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے اور چیونٹیوں کی طرح کچلے گئے مگر ایمان کو نہ ہاتھ سے گنوایا ۔اور تمام کمالات نبوت آپ ﷺ پر ختم ہو گئے ۔آپ کی نبوت میں کوئی حصہ بخل کا نہیں ۔ پھر 1905 براہین احمدیہ جلد پنجم میں فرمایا : ہزار ہزار ہا درود اس نبی ﷺ پر اور ہزار ہا رحمتیں اس نبی کے اصحاب پر ہوں ۔جنہوں نے اپنے خون سے اس کی پاسداری کی ۔پھر فرمایا : سب سے آخر پر مولانا محمد ﷺ ایک عظیم نور لے کر آئے ۔وہ نبی جناب الہی سے بہت نزدیک چلا گیا اور پھر مخلوق کی طرف جھکا اس طرح دونوں قسم کے حسن ظاہر کئے ۔اس حسن کو ناپاک طبع لوگوں نے اور اندھے لوگوں نے نہ دیکھا ۔آخر وہ سب اندھے ہلاک ہو گئے 1907 میں تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس کا نام محمد ﷺ کس قدر اعلی نبی ہے جس کی انتہاء معلوم نہیں ہو سکتی ۔افسوس جیسا حق شناس کا اس کو شناس نہ کیا گیا ۔توحید وہی پہلوان دنیا میں لیکر آیا ۔اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس نبی کریم ﷺ کو دیں ۔وہی سرچشمہ سب ہدایت ہے ۔وہ بغیر اس کے کوئی ہدایت کا دعوی کرتا ہے تو وہ شیطان ہے ۔(الزام لگاتے ہیں آپ ؑ تو فرما رہے ہیں جو بغیر ان کے کوئی دعوی کرے وہ شیطان ہے ۔) ہر ایک معرفت کا خزانہ اس نبی کو دیا گیا ۔جس اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہیں ۔توحید حقیقی اور زندہ خدا کی شناخت اسی کامل نبی سے پائی ۔خدا کے مکالمات بھی اسی نبی سے ملے ۔پھر اسی میں فرمایا : اب اس تمام بیان سے ہماری غرض ہے اللہ تعالیٰ نے اپنا کسی کے ساتھ پیار کرنا اس بات سے مشروط ہے کہ وہ رسول کریم ﷺ کی پیروی کرے ۔میرا ذاتی تجربہ ہے رسول کریم ﷺ سے محبت کرنا خدا تعالیٰ کا پیارا بن جاتا ہے ۔پھر اسی میں فرمایا : سو میں نے خدا کے فضل سے نہ کسی اپنے ہنر سے میں نے اس نعمت سے حصہ پایا ہے اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا ۔اگر میں اپنے سید مولا فخر الانبیاء اور خیر الوری محمد ﷺ کی راہوں کی پیروی نہ کرتا سو میں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا میں اپنے کامل علم سے جانتا ہوں کوئی انسان اس نبی کی پیروی کے خدا کو نہیں پا سکتا ۔دل کی صفائی بھی نبی کریم ﷺ کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہے ۔خدا سے محبت کرنا بھی رسول کریم ﷺ کی پیروی ہے ۔ 1908 کی اپنی تصنیف میں فرمایا : چشمہ معرفت میں : دنیا میں کڑورہا انسان پاک فطرت گزرے ہیں اور بھی ہوں گے مگر سب سے بہتر اور سب سے اعلی اور خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمد ﷺ ۔اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں ۔تم بھی اس پر درود بھیجو ۔صرف ہم ان نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں حضرت موسی حضرت داؤد ؑ ۔سو ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر نبی کریم ﷺ نہ آتے اور قرآن کریم نازل نہ ہوتا تو وہ تمام نبیوں کا صدق ہم پر واضح نہ ہوتا ۔کیونکہ قصوں سے کسی کا صدق ظاہر نہیں ہوتا ۔لیکن نبی کریم ﷺ کے ظہور سے یہ سب قصے حقیقت میں آگئے ۔ہم نے مکالمہ الہیہ اور خدا کے نشان کیا ہیں یہ سب کچھ نبی کریم ﷺ کی پیروی سے پایا ۔ہم نے ایک ایسے نبی کا محمد عربی بادشاہ ہر دو سرا کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی اسے خدا تو نہ کہہ سکوں پہ کہتا ہوں اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی نصیب کی ۔جو سورج ہدایت ہے ۔وہ تھکا نہیں جب تک عرب کو شرک سے پاک نہ کر دیا ۔وہ سچائی کی آپ دلیل ہے اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے ۔لیکن افسوس کے اکثر انسان سفلی زندگی کو پسند کر لیتے ہیں اور نور لینا نہیں چاہتے ۔پھر فرماتے ہیں : اب سوچنا چاہیے کیا یہ عزت اور اقبال و شوکت یہ جلال ہزاروں نشان آسمانی و برکات روحانی جھوٹے کو مل سکتی ہیں َہم کو فخر ہے کہ جس کا دامن ملا ۔ہم نے اس کے ذریعہ خدا کو دیکھ لیا ہے ۔اگر اسلام نہ ہوتا تو اس زمانہ میں اس بات کا سمجھنا محال تھا کہ نبوت کیا ہے معجزہ کیا ہے ۔اس عقدہ کو اس نبی ﷺ کے دائمی فیض نے حل کیا ۔ہم اب صرف قصہ گو نہیں بلکہ ہم نے خدا کا نور اپنے شامل حال پایا ۔ہم کیسے شکر ادا کر سکیں کہ وہ خدا اس نبی ﷺ کے ذریعہ ہم پر ظاہر ہوگیا۔ پس ان علماء کو اعتراض ہے کہ نبی کریم ﷺ کی سچی پیروی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ سے کیوں کلام کیا ۔پس حضرت مسیح موعود ؑ اور جماعت احمدیہ نہیں بلکہ یہ نام نہاد علماء اس الزام کے نیچے آتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا فیض زندہ نہیں ہے اور خدا تعالیٰ کی طاقتیں اب بھی کام کررہی ہیں ۔ پھر مقام و مرتبہ اور جاری فیض کے بارہ میں فرمایا کہ آپ ﷺ کے ظہور سے معجزہ آیا کہ جزیرہ عرب سمندر کی طرح خدا کی توحید سے بھر گیا اور ہمارے سید مولی ﷺ کو جس قدر نشان اور معجزات ملے وہ صرف اس زمانہ تک محدود نہ تھے بلکہ قیامت تک جاری ہے ۔ آ پ ؑ پر الزام ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے ۔پس یہ مقام و مرتبہ ہے آنحضرت ﷺ کا جو آپ ؑ نے سمجھا اور دوسروں کو اس کا ادراک دیا ۔اگر ہم حضرت مسیح موعود ؑ کو ماننے والے نہ ہوتے تو ہم ان کے ذریعہ یہ مقام جو نبی کریم ﷺ کا آج ہم پر ظاہر ہے وہ آ پ کی وجہ سے ہے ۔ان تمام تحریرات میں کہیں بھی کوئ جھول نہیں ہے ہر جگہ مقام و مرتبہ پہلے سے بڑھ کر بیان فرمایا ہے جو کہ 1884 سے 1908 تک کی تحریرات ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان مفاد پرست ملاں سے امت کو بچائے اور یہ محمد ﷺ کے عاشق صادق کو ماننے والے ہوں ۔یہی ایک ذریعہ سے جو امت مسلمہ کے اتحاد کو قائم کر سکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات کو پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق دے اور نبی کریم ﷺ کے ذریعہ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی توفیق دے ۔ آمین

Friday, 11 December 2015

Love for All Hatred for None


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ 11 دسمبر 2015 بیت الفتوح یوکے(مرتب کردہ یاسر احمد ناصر مربی سلسلہ ) تشہد و سورة الحمدللہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : گزشتہ دنوں ایک کالم نے لکھا اور ایک آسٹریلین سیاست دان نے کہا کہ اسلام کی تعلیم کے جہاد کے بارہ میں احکامات ہیں انہی کی وجہ سے مسلمان شدت پسند بنتے ہیں ۔اسلامی احکامات کے بارہ میں یو کے کہ سیاست دان نے بھی یہی کہا تھا ۔اسلام میں کچھ نہ کچھ شدت پسندی کے احکامات ہیں ۔جس کی وجہ سے مسلمانوں کا شدت پسندی کی طرف رحجان ہے ۔آج کل جو اسلام کے نام پر عراق اور شام میں شدت پسند گروہ نے کچھ علاقہ پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کی ہے اس میں مغربی ممالک کو بھی دھمکیاں دیں ہیں بعض جگہ ظالمانہ حملے کر کے معصوموں کو تنگ کیا ہے ۔اس سے جہاں عوام خوفزدہ ہوئی ہے وہاں جو بعض لیڈروں نے لا علمی کی وجہ سے یا اسلام مخالف خیالات کی وجہ سے اسلام کے خلاف کہنے کا موقع مل گیا۔کہنے اور لکھنے والے کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے دوسرے مذاہب میں بھی شدت پسندی ہے لیکن اس کے ماننے والے اب اس پر عمل نہیں کرتے یا زمانہ کی ضرورت کے مطابق تعلیم میں تبدیلی کر لی ہے اور اس بات پر زور ہے کہ قرآن کریم کے احکامات کو بھی اس زمانہ کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے ۔اس سے یہ بات تو ثابت ہوئی گئی کہ ان کی تعلیم اب خدا کی تعلیم نہیں رہی اور یہ ہونا تھا ۔یہ تعلیم قائم رہنے یا تا قیامت عمل کرنے والے کا وعدہ نہیں تھا ۔جب قرآن کریم میں اعلان تھا کہ ہم نے ہی اس ذکر کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ایک جگہ فرمایا : اللہ تعالیٰ کی قدیم سے عادت ہے جب کسی چیز سے منع کیا جائے تو اس کی تقدیر میں سے ہوتا ہے کہ بعض اس کے مرتکب ہونگے ۔جیسا کہ تورات میں یہودیوں کو منع کیا سو ان میں سے بعض نے تحریف کی ۔اس قرآن کے بارہ میں کہا گیا کہ ہم ہی اس کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے یہ صاف بتا رہی ہے کہ جب ایک قوم پیدا ہو کر اس کو مٹانے والی ہوگی تو پھر ایک فرستادہ کے ذریعہ حفاظت کی جائے گی ۔لوگ وقتا فوقتا اس پر حملے کر کے اس کو مٹانا چاہتے ہیں ۔گزشتہ دنوں ایک چھوٹی سی فلم چل رہی تھی دو لڑکے قران کی بعض آیات پڑھ کر سنا رہے تھے اور مختلف لوگوں سے اس کے بارہ میں پوچھ رہے تھے تو ہر ایک کو جب یہ پتہ چلتا تھا کہ قرآن کریم کی تعلیم سے ثابت ہو گیا کہ اسلامی تعلیم ہی ایسی ہے جس سے یہ حرکتیں ہوتی تھیں ۔کچھ دیر کے بعد وہ کتاب سے ٹائٹل اٹھا دیا وہ بائبل کی تعلیم تھی کسی نے کوئی بات نہیں تھی ۔جب اسلام کے ساتھ نام آتا ہے تو حملے کرتے ہیں۔اگر ایک مسلمان غلط حرکت کرتا ہے تو وہ اسلام سے جوڑی جاتی ہے اور اگر کوئی دوسرے مذہب والا کرے گا تو وہ معذور پاگل کہلائے گا۔ فرمایا : ہم مانتے ہیں کہ بعض مسلمان گروہوں کے غلط عمل نے اسلام کو بدنام کیا ہے لیکن اس پر قرآن کریم کی تعلیم کو نشانہ بنانا بھی اس کا اظہار ہے امریکہ صدارتی امیدوار اس کے خلاف بول رہا ہے ۔لیکن اسلام کی خوبصورت تعلیم کا مقابلہ کوئی مذہب اور نہ کوئی قانون کر سکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی حفاظت کی وعدہ کے مطابق ایک فرستادہ کو بھیجا اور اس کے مطابق اس نے اس کی حفاظت کی اور اسی نے فرمایا : قرآن کریم جس کا ابتدائی نام ذکر ہے اس نے اس زمانہ کی صداقتوں اور ودیتوں کو یاد کروانے آیا تھا ۔کہ اس زمانہ میں بھی ایک معلم آیا اور جو آخرین منھم لما ہلحقو بھم کا مصداق اور موعود ہے اور وہی تمہارے درمیان بول رہا ہے ۔پھر فرمایا ؛ جو یہ وعدہ ہے کہ حفاظت کا وعدہ کیا ہے ۔مسلمانوں کو اس مصیبت سے بچا لیا اور فتنہ میں پڑنے نہ دیا ۔مبارک ہیں وہ لوگ جو اس جماعت میں شامل ہو کر اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی عظمت کو قائم کرنے کے لئےچودھودیں صدی کے سر پر مجھے بھیجا ۔قرآن کریم کو جو عظمتیں ہیں وہ کسی مذہب کو نصیب نہیں ہیں ۔اس میں مسلمانوں کو بھی دعوت ہے کہ جو حملے ہو رہے ہیں اس کا توڑ کرنے کے لئے اس شخص کے ساتھ رشتہ جوڑ کر مخالفوں کے منہ بند کریں ۔جو گروہ یا لوگ تلوار کے زور سے اسلام کے پھیلانے کا دعوی کرتے ہیں۔حقیقت میں وہ اسلام کے دشمن اور اسلام مخالف طاقتوں کے آلہ کار ہیں ۔حضرت مسیح موعود ؑ نے واضح طور پر فرما دیا یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں ہے ۔اسلام امن اور پیار کی تعلیم سے بھرا ہوا ہے ۔آج اس زمانہ میں اس تعلیم کا پرچار کرنے کی ضرورت ہے اور اس کو سمجھ کر اس پر ہر احمدی کو عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔آج ہم نے یعنی احمدیوں نے ہی مسلمانوں اور مخالفوں کو حقیقت سے آشکار کرنا ہے ۔جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں وہ جاہل ہیں اسلام کی تعلیم تو امن اور سلامتی کی تعلیم ہے ۔قرآن کریم کی روشنی میں ہی یہ تعلیم ان لوگوں کو دکھانی ہے ۔ فرمایا : اس وقت دنیا کو اسلام کی حقیقی تصویر دکھانا بہت ضروری ہے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی ہر جگہ اس طرف توجہ ہے ۔حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ میڈیا سے تعلق اور رابطہ بھی رکھا جائے اور اس کے ذریعہ سے عوام کو بتایا جائے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ اور باقی ملکوں جرمنی میں بھی میڈیا سے رابطے ہیں ۔ان کو وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے ۔گزشتہ دنوں برٹش پارلیمنٹ میں ایک ممبر نے جماعت احمدیہ کے حوالے سے بتایا کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والے احمدی مسلمان ہیں اس پر ان کی بڑی تعریف کی گئی اور وزیر داخلہ نے کہا یہ اسلام جو احمدی پیش کرتے ہیں وہ مختلف ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ کوئی نئی تعلیم نہیں ہے بلکہ اسلام کی حقیقی تعلیم پیش کرتے ہیں اس تعلیم کو ہمیشہ تازہ رکھنے کی ضرورت ہے ۔شدت پسندی کے حوالے سے اخبار میں شرخیا ں دی جاتی ہیں ۔گزشتہ دنوں جب جاپان میں تھا تو وہاں بھی پڑھے لکھے طبقہ کا اظہار تھا بلکہ ایک عیسائی پادری نے کہا اسلام کی تعلیم جو تم بتا رہے ہو اس کو جاپانیوں کو جاننے کی بہت ضرورت ہے ۔لیکن اس کا فائدہ تبھی ہوگا جب آپ اس بات کو اس فینگشن تک محدود نہ کریں بلکہ جاپان میں مسلسل کوشش سے یہ تعلیم دنیا کو بتائیں ۔اب انصاف پسند غیر بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ دنیا کے سامنے لگا تار اسلام کی تعلیم پھیلاتے رہو ۔یہ جاپان جماعت کا بھی کام ہے کہ جامع منصوبہ بندی کر کے اس کام کو تازہ رکھیں ۔اسی طرح ہر جگہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کا ادراک جو ہوا ہے اس کو پھیلائیں ۔ فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کریم کے معنوں کی صحیح تشریح کے لئے آپ ؑ کو بھیجا گیا ۔آپ نے اپنی کتب اور ملفوظات میں اس کا بہت وضاحت سے خوب حق ادا کیا ہے ۔ بعض مثالیں پیش کرتا ہوں جو اسلام کی امن کی تعلیم کو واضح کرتی ہیں قرآن کریم میں’’ دین میں کوئی جبر نہیں ‘‘ پھر فرمایا ’’ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو جس قدر لوگ زمین پر تھے سب کے سب ایمان لے آتے جب خدا بھی مجبور نہیں کرتا تو تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ لوگ ایمان لے آئیں ۔آپ ؑ نے فرمایا اسلام نے کبھی جبر کا مسئلہ نہیں سکھایا ۔آنحضرت ﷺ کی خواہش کے باوجود کہا کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔اگر قرآن شریف اور حدیث کی کتابوں کو غور سے دیکھا جائے تو اس قدر وسعت معلومات کے بعد یقین کے ساتھ معلوم ہوگا کہ اسلام تلوار کے ساتھ پھیلا ہے یہ قابل شرم بیان ہے ۔یہ ان لوگوں کا خیال ہے جو تعصب سے الگ ہو کر نہیں دیکھ پاتے ۔مگر میں جانتا ہوں کہ زمانہ قریب ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیاسے ان بہتانوں پر مطلع ہو جائیں گے ۔کیا وہ جبر کا مذہب کہلا سکتا ہے جس میں لکھا کہ دین میں جبر نہیں ۔کیا اس نبی کو جابر کہا جا سکتا ہے جس نے 13 سال ہر ایک کو جبر کو برداشت کرنے کی تعلیم دی ۔جب حد سے بات بڑی تو پھر تلوار کے مقابلہ میں تلوار اٹھائی گئی ۔اگر جبر کی تعلیم ہوتی تو جبر کی تعلیم کی وجہ سے امتحان کے موقع پر سچے ایماندار کی وجہ سے صدق کا نمونہ نہ دکھا پاتے ۔جبر کی وجہ سے دل سے وفا نہیں دکھا سکتے ۔لیکن ہمارے صحابہ ؓ کی وفادار ایک ایسا امر ہے کہ وہ ظاہر باہر ہیں ۔اسلام میں تین قسم کی لڑائیاں ہیں ۔جب سختی کی اجازت ہے۔ ایک دفاعی طور پر اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھایا جا سکتا ۔دوم خون کے عوض خون ۔جب سزا دینا مقصود ہو۔تین : بطور آزادی قائم کرنے کے ۔جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے ۔ان تین مواقع کے سوا کہیں حکم نہیں ہے کہ دین پھیلانے کے لئے تلوار اٹھاؤ ۔ قرآن کریم نے کہا ہے کہ نیک نمونے سے اپنی طرف کھینچو ۔وہ ابتدائی تلوار دشمن کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے کھینچی گئی تھی ۔ فرمایا : قرآن کریم کا جبر سے دین میں داخل نہ کرنے کا اعلان یہ بتاتا ہے کہ جبر سے دین کا کوئی معاملہ نہیں ہے ۔دین کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرو ۔یہ ہر ایک احمدی کی بہت بڑھی ذمہ داری ہے کہ دین کی ذاتی خوبی کو پیش کرنے کے لئے قرآن کریم کا علم حاصل کر کے دنیا کو اپنے نمونے سے اپنی طرف لائے ۔قرآن کریم میں ایک جگہ اسلام قبول نہ کرنے والوں کا نقشہ یہ ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم تیری پیروی کریں تو ہم کو باہر نکال دیا جائے ۔پس اسلام کی تعلیم پر اعتراض یہ نہیں ہے کہ بلکہ جو قبول کرتا ہے اس کو نکالا جا رہا ہے ۔اور نہ قبول کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اس تعلیم پر عمل کریں تو ارد گرد کے لوگ ہم کوتباہ کر دیں ۔اسلام کی تعلیم تو دوستی کا ہاتھ بڑھانے والی تعلیم ہے ۔امن و محبت کا پیغام دینے والی ہے ۔جو مسلمان اس پر عمل نہیں کرتے وہ ان کی بد قسمتی ہے ۔اب تو میڈیا پر خود ان کے لوگ کہنے لگ گئے ہیں کہ شدت پسند تنظیمیں ہماری اپنی پیدا کی گئی ہیں ۔اس واسطے میں مسلمانوں اور جو اسلام کے نام پر مسلمان کہلاتے ہوئے شدت پسندی کرتے ہیں وہ بری الذمہ نہیں ۔اس آگ کو بھڑکانے میں بڑی طاقتوں کا بہت بڑا حصہ ہے ۔ہر تجزیہ نگار کا میڈیا کے ذریعہ ہر جگہ اپنے خیالات پہنچانا اب بہت آسان ہوگیا ہے ۔ایک طرف شدت پسندوں کو ختم کرنے کی باتیں ہوتی ہیں اور دوسری طرف اسلحہ پہنچانے والوں کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ۔پس دنیا کے امن کو برباد کرنے والے صرف مسلمان گروہ نہیں ہیں بلکہ بڑی حکومتیں بھی ہین جو اپنے مفادات کو اہمیت دیتی ہیں ۔ایک حقیقی مسلمان تو جانتا ہے کہ خدا سلام ہے ۔ایک جگہ قرآن کریم میں آتا ہے ۔اے اللہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو ان سے در گزر کر اور وہ جلد جان جائیں گے ۔حقیقت کیا ہے ۔یہ ہے اسلام کی تعلیم ۔اسلام مخالفین کی تمام زیادتیوں کو برداشت کر اور کہہ میں سلامتی کا پیغام دیتا ہوں اور دیتا رہونگا ۔پس جب یہ حکم محمد ﷺ کے لئے ہے تو عام مسلمان کے لئے کس قدر بڑھ کر ہوگا ۔ہمارا کام اسلام اور امن کا پیغام پہنچانا ہے ۔قرآن نے کبھی بھی اور کہیں بھی یہ حکم نہیں دیا کہ جو بات نہ مانے تو اس کو تہہ تیغ کر دو ۔اگر کوئی اس کی نفی کر رہا ہے تو دنیا میں امن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو وہ حقیقی اسلام نہیں ہے ۔وہ ان کے اپنے مفادات ہیں یا بڑی طاقتوں کے مفادات ہیں ۔جنہوں نے مسلمانوں کو آلہ کار بنایا ہوا ہے ۔ فرمایا : ہم میں سے ہر ایک کو اور خاص طور پر نوجوانوں کو احساس کمتری میں شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔اسلام امن کی تعلیم دیتا ہے اس تعلیم کا ادراک اور اپنے اوپر لاگو کرنے کی ضرورت ہے ۔اس تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کریں اور اپنے عملی نمونوں سے دنیا کو بتائیں کہ آج قرآن کریم کی صحیح تفسیر اور تشریح ہی اس کی معنوی حفاظت بھی ہے ۔جس کی حفاظت کے لئے حضرت مسیح موعود ؑ کو بھیجا ہے ۔یہ ہر احمدی مرد و عورت اور لڑکے لڑکی کو کوشش کرنی چاہیے ۔اس وقت جس دھہانے پر کھڑی ہے کسی وقت بھی اس میں گر سکتی ہے ایسے وقت میں دنیا کو اس سے بچانے کے لئے کوشش کرنا احمدی کی ذمہ داری ہے اور احمدی ہی کر سکتا ہے ۔اس کے لئے کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے بڑی چیز خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنا ہے اور اس کا تقوی اپنے دلوں میں پیدا کرنا ہے اسی وجہ سے ہم دنیا کو امن و سلامتی دے سکتے ہیں ۔ آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار ۔ اس خدا سے تعلق کو مضبوط تر کرنے کی ضرورت ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور دنیاداروں کو بھی عقل دے کہ وہ اس فرستادہ کی بات سن کر تباہی سے بچنے کی کوشش کریں ۔ نماز کے بعد تین جنازے دو غائب اور ایک حاضر ۔ایک عنائت اللہ صاحب کا 9 دسمبر کو وفات ہوئی ۔مبلغ سلسلہ تھے ۔والد اللہ بخش صاحب تھے ۔عنائت اللہ احمدی صاحب کی پیدائش جنوری 1920 کی ہے ۔قادیان مین میٹرک کیا 1944 کو وقف کیا اور 1946 سے 1979 تک مبلغ کے طور پر کام کیا ۔1946 سے 173 تک بیرون مبلغ کام کیا۔ایک بیٹے حبیب اللہ احمدی صاحب بھی وقف کی توفیق پا کر وقف میں ہیں۔شیخ مبارک احمد صاحب کے مدد گاروں میں سے تھے۔اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور نسلوں کو بھی خلافت سے وفا کا تعلق رکھے ۔ دوسرا مولوی بشیر احمد صاحب کالا افغانا صاحب درویش قادیان کا ہے ۔1946 میں قادیان آیا تو اس وقت احمدیت کی معلومات نہ تھیں ۔نماز کے لئے کوئی مسجد بتاؤ جو قادیانی کی مسجد نہ ہو ۔خوبصورت مسجد ہے اب میں قادیانیوں کی مسجد میں نہیں جاؤنگا۔ایک دن احراریوں کی مسجد میں بھی گیا تو پھر عہد کیا کہ مسجد اقصی میں ہی نماز ادا کرونگا ۔پھر جماعت سے تعارف ہوا اور احمدیت قبول کر لی ۔1947 میں ملک کی تقسیم کے بعد ارشاد پر حفاظت مرکز کے لئے اپنا نام پیش کر دیا ۔اور درویش میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ۔1952 میں شادی ہوئی دو بیٹے پیدا ہوئے ۔دہاتی مبلغ کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی ۔مختلف دفاتر میں بھی کام کیا مینیجر اخبار البدر بھی رہے بڑے وسیع تعلقات تھے ان کے بھی ۔بڑا عزت اور احترام تھا ۔ہمیشہ مسجد میں نماز ادا کرتے تھے وفات والے دن بھی نماز ظہر مسجد میں ادا کی۔اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے او ر ان کی اولاد کو بھی اس کا وارث بنائے ۔ تیسرا مکرمہ قانتہ بیگم صاحبہ ہیں جو اڑیسہ کی ہیں 16 اکتوبر 2015 کو وفات ہوئی بہت صابرہ شاکرہ تھیں ۔ان کے خاوند سرکاری ملازم تھے پھر بھی غریب عزیزوں کی خدمت کیا کرتے تھے ۔اللہ تعالیٰ مرحومہ کی درجات بلند فرمائے آمین